اسرائیل اور مراکش نے امریکا کی ثالثی میں معمول کے تعلقات استوار کرنے سے اتفاق کیا ہے۔مراکش گذشتہ چار ماہ میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے والا چوتھا عرب ملک ہے۔
اس امن معاہدے کے حصے کے طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مغربی صحرا (صحارا) کے تمام علاقے پر مراکش کی خود مختاری تسلیم کرنے سے اتفاق کیا ہے۔اس علاقے پر مراکش کا الجزائر کی حمایت یافتہ تحریک پولیسیاریو فرنٹ سے تنازع چل رہا ہے۔ یہ تحریک اس علاقے میں اپنی آزاد ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے جمعرات کو مراکش کے شاہ محمد ششم سے فون پر بات چیت کی ہے اور ان کے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے کا اعلان کیا ہے۔اس کے تحت مراکش اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات اور سرکاری روابط استوار کرے گا،اس کی پروازوں کو اپنی فضائی حدود سے گذرنے کی اجازت دے گا اور تمام اسرائیلیوں کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان اپنی پروازیں چلائے گا۔
وائٹ ہاؤس کے سینیر مشیر اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’’دونوں ممالک رباط اور تل ابیب میں فوری طور پر اپنے اپنے رابطہ دفاتر کھولیں گے۔ان کا حتمی مقاصد (دونوں شہروں میں )سفارت خانے کھولنے کی تیاری ہے۔وہ اسرائیلی اور مراکشی کمپنیوں کے درمیان معاشی اور کاروباری تعاون کو بھی فروغ دیں گے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ’’ آج امریکی انتظامیہ نے ایک اور تاریخی سنگ میل عبورکرلیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے مراکش اور اسرائیل کے درمیان امن سمجھوتا کرادیا ہے۔یہ اسرائیل اور عرب/مسلم ممالک کے درمیان چار ماہ میں چوتھا سمجھوتا ہے۔‘‘
مراکش سے پہلے متحدہ عرب امارات ، بحرین اور سوڈان نے اسرائیل سے معمول کے تعلقات استوار کرنے کے لیے امن معاہدے کیے ہیں۔تاہم سوڈان نے ابھی اس امن معاہدے پر دست خط نہیں کیے ہیں۔
کوشنر کا کہنا تھا کہ ’’اس تاریخی اقدام کے ذریعے مراکش نے اپنے ہاں مقیم یہود کے علاوہ اسرائیل اور دنیا میں کہیں بھی مقیم یہودیوں کے ساتھ اپنے تعلق پختی کر لیا ہے۔ یہ اسرائیل اور مراکش کے عوام کے لیے آگے بڑھنے کا ایک اہم قدم ہے۔اس سے اسرائیل کی سکیورٹی مضبوط ہوگی۔اس سے دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعلقات کو فروغ ملے گا اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے معاشی مواقع پیدا ہوں گے۔‘‘