امریکا کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک میلے نے اسی ہفتے افغان صدر اشرف غنی اور طالبان کے مذاکرات کاروں سے ملاقات کی ہے اور ان سے جنگ زدہ ملک میں تشدد کے خاتمے سے متعلق امور پر بات چیت کی ہے۔انھوں نے فریقین پر مذاکرات کے ذریعے بحران کے حل کی ضرورت پر زوردیا ہے۔
امریکا کے محکمہ دفاع پینٹاگان نے جمعرات کو قطر میں ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں بیان جاری کیا ہے۔پینٹاگان کی خاتون ترجمان سارہ فلیہرٹی نے کہا ہے کہ ’’جنرل مارک میلے نے قطر میں طالبان سے ملاقات میں فوری طور پر تشدد کے خاتمے اور بحران کے مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل کا عمل تیز کرنے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔اس سے علاقائی استحکام کو تقویت ملے گی اور امریکا کے قومی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے گا۔
جنرل مارک اے میلے نے منگل کے روزدوحہ میں طالبان کے مذاکرات کاروں سے دو گھنٹے تک ملاقات کی تھی۔ وہ بدھ کو کابل پہنچے تھے اور افغان صدر اشرف غنی سے امن عمل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا۔
انھوں نے اپنے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میری طالبان اورافغان حکومت کے ساتھ بات چیت کا سب سے اہم حصہ یہ تھا کہ افغانستان میں تشدد کو فوری طور پر کیسے کم کیا جائے کیونکہ ہر معاملہ کا انحصاراسی پر ہے۔‘‘
جنرل میلے کے ہم سفر صحافیوں کو سکیورٹی وجوہ کی بنا پر ان کی طالبان اور افغان صدر سے ملاقات کی تفصیل کی خبر فوری طور پر دینے سے منع کیا گیا اور انھوں نے اس سے اتفاق کیا تھا۔ان میں امریکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ کا نمایندہ بھی شامل تھا۔ان سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ جنرل میلے کی خطے سے واپسی کے بعد خبر دیں گے۔
امریکی جنرل کی طالبان کی مذاکراتی ٹیم سے یہ دوسری غیرعلانیہ ملاقات کی تھی۔ انھوں نے جون میں دوحہ میں پہلی ملاقات کی تھی لیکن ابھی تک اس ملاقات کی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔جنرل میلے نے طالبان سے اس نئی ملاقات میں کسی نمایاں پیش رفت کی اطلاع نہیں دی ہے ہے۔
لیکن ان کا یہ ٹاکرا اس اعتبار سے سنگِ میل کی حیثیت رکھتاہے کہ انھوں نے اس گروپ سے بات چیت کی ہے جس کے خلاف وہ کوئی دو عشرے تک لڑتے رہے ہیں۔ وہ افغانستان میں تین مرتبہ فوجی خدمات انجام دے چکے ہیں۔وہ پہلی مرتبہ 2003ء اور 2013ء-14 میں تعینات رہے تھے۔
دریں اثناء افغانستان میں امریکا اور اتحادی افواج کے کمانڈر آرمی جنرل اسکاٹ مِلر نے کابل میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ’’طالبان نے جنوبی صوبوں ہلمند اور قندھار میں بالخصوص افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔اس کے علاوہ وہ شاہراہوں اورانفرااسٹرکچر پر بھی حملے کررہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا:’’میرا تجزیہ یہ ہے کہ تشدد میں اضافے سے امن عمل خطرات سے دوچار ہوجائے گا۔جتنا زیادہ تشدد ہوگا،اتنے ہی زیادہ خطرات ہوں گے۔‘‘
کابل میں امریکی سفارت کار راس ولسن کا بھی کہنا ہے کہ ’’طالبان کے تشدد سے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔اس سے افغانستان کی مسلح افواج اور معاشرے پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ امریکا نے 29فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ جنگ بندی کے تاریخی سمجھوتے پر دست خط کیے تھے۔اس کے تحت امریکا آیندہ سال موسم گرما تک افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کو بتدریج واپس بلا لے گا لیکن اس سے پہلے طالبان ملک میں تشدد میں کمی کریں گے اور دوسری شرائط کی پاسداری کریں گے۔