سعودی دارالحکومت الریاض کی ایک فوجداری عدالت نے ایک خاتون قیدی کے دوران حراست خود پر تشدد سے متعلق دعوے کو مسترد کردیا ہے۔
یہ سعودی عورت اس وقت سکیورٹی سے متعلق الزامات کی پاداش میں ایک حراستی مرکز میں قید ہے۔عدالتی حکام نے اس کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔اس عورت نے عدالت میں دائرکردہ درخواست میں سرکاری اہلکاروں پر الزام عاید کیا تھا کہ انھوں نے اس کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور ہراساں کیا ہے۔
عدالت کے حکم پر اس کے الزامات کی پبلک پراسیکیوشن نے تحقیقات کی ہے اور اس کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ محکمے کو اس خاتون کے الزامات کے حق میں کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔اس نے تمام متعلقہ سکیورٹی حکام اور اس خاتون کی ساتھی قیدیوں کے بیانات قلم بند کیے تھے اور اس کی میڈیکل رپورٹس کو بھی ملاحظہ کیا ہے۔
الریاض کی فوجداری عدالت کے جج نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ درخواست گزار خاتون 30 دن کے اندر اس ابتدائی فیصلے کے خلاف اعتراضات دائر کرسکتی ہے ۔اس کے بعد وہ اپیل عدالت میں درخواست دے سکتی ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس نے درخواست گزار کو اپنے دعووں کے حق میں ثبوت پیش کرنے کے لیے بھرپور موقع فراہم کیا تھا لیکن وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی ہے اور کیس کو لٹکانے کے لیے تاخیری حربے استعمال کرتی رہی ہے۔
پبلک پراسیکیوشن نے عدالت میں پیش کردہ اپنے جواب میں کہا ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ اور نگرانی کے کیمروں کی فوٹیج کے جائزے سے بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا جس سے یہ پتا چل سکے کہ اس عورت کو الریاض کی حائر جیل میں بھوک ہڑتال کے دوران میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا یا نیند سے محروم رکھا گیا تھا بلکہ اس کے بجائے صحت کے پروٹوکولز کے عین مطابق معالجین مسلسل اس کا طبی معائنہ کرتے رہے ہیں تاکہ وہ بھوک کی وجہ سے علیل ہو اور نہ جسمانی طور پر کسی پیچیدگی کا شکار ہو۔