عراق میں ایران اور اس کی ہمنوا ملیشیاؤں کا جواب دینے کے لیے ٹرمپ کے سامنے آپشنز تیار

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ جاری ہے۔ بالخصوص 20 دسمبر کو اس راکٹ حملے کے بعد جس میں بغداد کے گرین زون میں امریکی سفارت خانے کو نشاہ بنایا گیا۔ واشنگٹن نے اس کارروائی کا الزام ایران پر عائد کیا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر ذمے دار نے انکشاف کیا ہے کہ قومی سلامتی کے سینئر ذمے داران نے بدھ کی شام متعدد آپشنز پر اتفاق رائے کیا ہے۔ یہ آپشنز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیش کیے جائیں گے۔ ان کا مقصد عراق میں امریکی عسکری اور سفارتی اہل کاروں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے کسی بھی حملے کو روکنا ہے۔

امریکی ذمے داران کا یہ اجلاس 20 دسمبر کو گرین زون پر ہونے والے حملے کے سبب منعقد ہوا۔ عراقی فوج اور امریکی سفارت خانے نے اتوار کے روز بتایا تھا کہ بغداد کے گرین زون میں کم از کم 8 راکٹ آ کر گرے۔ اس حملے میں امریکی سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ دوسری جانب مرکزی کمان نے انکشاف کیا ہے کہ مذکورہ حملے میں 21 راکٹ داغے گئے۔

امریکی انتظامیہ کے سینئر ذمے دار نے نام شائع نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ قائم مقام وزیر دفاع کریس میلر، وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور قوم سلامتی کے مشیر روبرٹ اوبرائن نے وائٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں صورت حال کا جائزہ لیا۔

ذمے دار نے ان آپشنز کی تفصیلات کا ذکر نہیں کیا تاہم واضح کیا کہ "مختلف آپشنز کا مجموعہ" جلد ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ آپشنز میں ہر آپشن اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ وہ جارحیت سے خالی ہو اور مزید حملوں کا راستہ روک سکے۔

اجلاس کے بعد ٹرمپ نے جمعرات کے روز ٹویٹر پر چند راکٹوں کی تصویر پوسٹ کی ہے۔ ٹرمپ کے مطابق اتوار کے روز استعمال ہونے والے راکٹ ایران سے آئے تھے۔ امریکی صدر نے خبردار کیا کہ "میں ایران کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر ایک امریکی بھی ہلاک ہوا تو میں اس کا ذمے دار ایران کو ٹھہراؤں گا۔ انہیں چاہیے کہ اس بات کو سوچیں"۔

یاد رہے کہ عراقی فوج نے اعلان کیا تھا کہ قانون سے خارج ایک جماعت اس راکٹ حملے کی ذمے دار ہے۔

امریکی ذمے داران عراق میں امریکی تنصیبات پر پے در پے راکٹ حملوں کے حوالے سے ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کو ملامت کا نشانہ بناتے ہیں۔

واضح رہے کہ عراق میں مسلح گروپوں اور ملیشیاؤں نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے امریکی افواج پر راکٹ حملوں کا سلسلہ معلق کر دیا ہے اس شرط کے ساتھ کہ عراقی حکومت امریکی افواج کے انخلا کا ٹائم ٹیبل پیش کرے۔ تاہم 18 نومبر کو امریکی سفارت خانے پر راکٹ حملہ اس بات کی واضح علامت تھا کہ ایران نواز عراقی گروپوں نے امریکی اڈوں پر حملوں کے دوبارہ آغاز کا فیصلہ کر لیا ہے۔

واشنگٹن یہ دھمکی دے چکا ہے کہ اگر عراقی حکومت نے ایران کے حلیف گروپوں کی سرکوبی نہ کی تو وہ بغداد میں اپنا سفارت خانہ بند کر دے گا۔

مقبول خبریں اہم خبریں