افغان حکومت نے جنوبی صوبہ نیمروز میں ایک فضائی حملے میں 14 شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات شروع کردی ہے۔
نیمروز میں افغان فوج نے ایک مکان پر طالبان کی موجودگی کے شُبے میں یہ فضائی حملہ کیا تھا۔علاقے کے مکین مقتولین کی لاشیں صوبائی دارالحکومت زارنج میں لے گئے تھے اور انھیں وہاں رکھ کر احتجاج کیا ہے۔انھوں نے حکام کو بتایا ہے کہ مرنے والے طالبان نہیں بلکہ عام شہری تھے۔
افغان حکام نے ہفتے کی شب نیمروز میں فضائی حملے کی تصدیق کی تھی لیکن اتوار کو ابتدائی اطلاعات کے حوالے سے بتایا تھا کہ فضائی بمباری میں طالبان مزاحمت کاروں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
افغان وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ’’ضلع خش رود میں فضائی حملے میں طالبان کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے اور شہریوں کی مبیّنہ ہلاکتوں کی تحقیقات کی جارہی ہے۔‘‘
نیمروز کے ایک مقامی سرکاری عہدے دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ افغان فضائیہ نے ایک مکان کو حملے میں نشانہ بنایا تھا۔یہ بمباری طالبان کی وہاں کی موجودگی کے شُبے میں کی گئی تھی۔اس عہدے دار کا کہنا ہے کہ تمام مہلوکین کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔
طالبان کے ترجمان قاری محمد یوسف احمدی نے بھی افغان حکام کے دعوے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ مرنے والے ان کے جنگجو نہیں تھے بلکہ عام شہری اور ایک ہی خاندان کے ارکان تھے۔ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
افغان فضائیہ کے عام شہریوں پر اس حملے سے ایک روز قبل ہی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حکومت اور طالبان کے نمایندوں کے درمیان امن مذاکرات کے دوسرے دورکا آغاز ہوا تھا۔توقع ہے کہ طرفین جنگ زدہ ملک میں تشدد کے خاتمے اور انتقال اقتدار کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔
طرفین نے گذشتہ روز کی ملاقات کے بعد کہا تھا کہ انھوں نے مذاکرات کے نئے دور کے ایجنڈے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ یہ ملاقات بڑے مثبت اور خوشگوار ماحول میں ہوئی ہے۔