انڈونیشیا کے پانیوں میں چین کا ایک تحقیقاتی جہاز پایاگیا ہے لیکن اس کا ٹریکنگ نظام بند تھا۔انڈونیشی حکام نے چین کی اس بحری سرگرمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انڈونیشیا کی میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی (باکاملہ) کے ترجمان کرنل ویسنو پرامان دتا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’حکام کو اس جہاز کی آبنائے سنڈا میں غیرمجاز سرگرمیوں پر تشویش لاحق ہوئی تھی کیونکہ اس نے تین مرتبہ اپنے خودکار شناختی نظام کو بند کردیا تھا۔‘‘
ژیانگ یانگ ہانگ 03 نامی یہ جہاز بدھ کی شام انڈونیشیا کی آبی حدود سے نکل گیا تھا۔انڈونیشیا کے سکیورٹی حکام نے اس جہاز کی سرگرمیوں کو بڑی باریک بینی سے ملاحظہ کیا ہے کیونکہ خطے میں پہلے ہی چین کی فوجی سرگرمیوں اور مچھلی کے شکار کے لیے جہازوں کی موجودگی پر تشویش پائی جارہی ہے۔
اس واقعے سے قبل حال ہی میں انڈونیشیا کے جزیرے سلویسی میں ایک زیرآب خودکار گاڑی بھی پکڑی گئی تھی۔اس کو ایک مقامی مچھیرے نے سمندر سے نکالا تھا۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ یہ خودکار گاڑی چین کی ساختہ ہوسکتی ہے۔اس کی انڈونیشیا کے پانیوں میں موجودگی کو سکیورٹی کی ممکنہ خلاف ورزی قراردیا گیا تھا۔انڈونیشیا کی بحریہ ابھی تک اس کشتی کی اصل کے بارے میں تحقیقات کررہی ہے۔
باکاملہ کے ترجمان نے برطانوی خبررساں ایجنسی رائیٹرز کو بتایا ہے کہ فوری طور پر اس ریسرچ جہاز اور خودکار زیرآب گاڑی کے درمیان کسی باہمی تعلق کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ ژیانگ یانگ ہانگ 03 نے انڈونیشی حکام کے ساتھ ریڈیو ابلاغ کے وقت بتایا تھا کہ اس کا خودکار شناختی نظام ناکارہ ہوگیا ہے۔
اس چھوٹے چینی جہاز کا انڈونیشیا کی فضائی کمپنی سری وجایا کے سمندر میں گرکرتباہ ہونے والے جہاز کی تلاش کے دوران میں پتاچلا تھا۔یہ مسافرطیارہ گذشتہ ہفتے کے روزجاواسمندر میں گرکر تباہ ہوگیا تھا۔اس میں 62 افراد سوار تھے۔
جکارتہ میں چینی سفارت خانے نے فوری طور پر اپنے بحری جہاز کی انڈونیشیا کے پانیوں میں موجودگی کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے جبکہ انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ چینی جہاز کو میری ٹائم تحقیقی سرگرمیوں کے لیے کسی اجازت نامے کے اجرا سے آگاہ نہیں ہیں۔