امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدہ دار نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ امریکا مشرقِ اوسط کواس کے حال پر چھوڑکرنکل رہا ہے۔اس عہدہ دارکا کہنا ہے کہ خطے میں امریکی فوجیوں اور دفاعی مشینری کی موجودگی ہمیشہ کے لیے ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے جمعرات کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ صدرجوبائیڈن نے پینٹاگان کو خطۂ خلیج سے فوجیوں کے انخلا اورفوجی آلات وسامان کو ہٹانے کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے۔
امریکا کے قائم مقام معاون وزیرخارجہ برائے مشرقِ بعید جوئے ہُڈ سے جب العربیہ نے اس حوالے سے سوال کیا تو انھوں نے کہاکہ’’محکمہ دفاع نے ابھی اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔اس لیے اس حوالے سے توکوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔میرے خیال میں توفوجی اہلکار، مشینری اور آلات ہمیشہ کے لیے موجود ہیں۔‘‘
ان سے جب پوچھاگیا کہ امریکا خلیج میں اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کوکیسے یہ یقین دہانی کرائے گا کہ وہ ان کے ساتھ تعلقات کوبرقراررکھنا چاہتا ہے؟مسٹرہُڈ نے اس کے جواب میں کہا:’’وہاں واشنگٹن کےاتحاد برقرار رہنے کے لیے ہیں۔یہ ختم ہونے کے نہیں۔مشرقِ اوسط بھر میں ہمارے شراکت داروں کے تحفظ ،سلامتی اوراستحکام کے لیے ہمارا پختہ عزم تبدیل ہورہا ہے اور نہ یہ کبھی ہوگا۔‘‘
تاہم اس کے باوجود انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’خطے میں ہمارے شراکت داروں کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔اس بہتری کے پیش نظرامریکا کو خطے میں اپنی افرادی قوت،بعض مشینری اور ہتھیار رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘‘
انھوں نے العربیہ سے ایران کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکاکا اب تک مؤقف وہی ہے جس کا صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے اور وہ یہ کہ وہ پہلے جوہری سمجھوتے کی تمام شرائط کی پاسداری کرے۔اس کے بعد اس پرعایدکردہ بعض پابندیوں کو ہٹانے پرغورکیا جائے گا۔البتہ انھوں نے واضح کیا کہ امریکا ایران کے خلاف عایدکردہ تمام پابندیوں کو ختم نہیں کرے گا۔
ان کاکہنا تھاکہ’’امریکاکے خلاف ہماری بعض پابندیوں کا تعلق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہی ہے۔جوہری سمجھوتے میں امریکا کی دوبارہ شمولیت کا یہ مطلب نہیں کہ ایرانی حکومت نے اب شاہراہوں پراپنے حقوق کے لیے پُرامن احتجاج کرنے والے شہریوں پرگولیاں چلانا بند کردی ہیں۔‘‘
مسٹر ہُڈ کا کہنا تھا کہ’’جب تک ایرانی شہریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رہے گا تو ہماری ایرانی نظام کے خلاف پابندیاں بھی یقینی طورپر برقرار رہیں گی۔‘‘
انھوں نے ایران اور چین کے درمیان حالیہ سمجھوتے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا چین سمیت ملکوں کے درمیان ’’صحت مند اور معمول‘‘ کے تعلقات کا خیرمقدم کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہے کہ بین الاقوامی اقدار اور قواعد کے مطابق سب کو برابری کی بنیاد پر مواقع ملنے چاہییں اورسرمایہ کاروں کو اس بات کا پتا ہونا چاہیے کہ وہ کس شعبے میں کس طرح کی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔‘‘
انھوں نے ایران اور چین کے درمیان دوطرفہ تعاون کے حالیہ سمجھوتوں کے بارے میں اپنے شکوک کا اظہار کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’’اگرروسی اور چینی حکومت کے ماضی میں مختلف حکومتوں سے کیے گئے سمجھوتوں کا ایک نظر سے جائزہ لیں تو یہ پتاچلے گا کہ یہ کبھی ثمربار ثابت نہیں ہوئے تھے۔اس لیے امریکا ایران اور چین کے درمیان ڈیل کے بارے میں اپنا فیصلہ اس کے کوئی مادی شکل اختیارکرنے تک محفوظ رکھے گا۔‘‘