یمن میں چند ہفتے قبل حوثی ملیشیا کے ہاتھوں اغوا ہونے والی فن کارہ اور فیشن ماڈل انتصار الحمادی کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کی مؤکلہ کے خلاف فوجداری تحقیق کا جلد آغاز ہونے والا ہے۔
یمنی ماڈل کے وکیل خالد محمد الکمال نے میڈیا کو دیے گئے بیان میں بتایا کہ انتصار سے پوچھ گچھ آئندہ اتوار کو صنعاء کے مغرب میں واقع ایک عدالت میں ہو گی۔
حوثی ملیشیا نے صنعاء کی سڑک سے انتصار کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔
انتصار کی دوستوں نے گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر انکشاف کیا تھا کہ حوثیوں کے مسلح عناصر نے نوجوان فن کارہ پر اس وقت حملہ کر کے اغوا کر لیا جب وہ دارالحکومت کے وسط میں شارع حدّہ سے جا رہی تھی۔

خبروں سے متعلق ویب سائٹ "نیوز یمن" کے مطابق انتصار کے ساتھ اس کی تین ساتھی خواتین یسرا، ابتسام اور سارہ کو بھی اغوا کیا گیا۔
اسی طرح "یمنی فیمینسٹ وائس" فورم نے یمنی فیشن ماڈل کے اغوا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس کارروائی کا سبب انتصار کا کام ہے جو سخت گیر حوثی ملیشیا کے نزدیک جرم شمار ہوتا ہے۔
مقامی اخباری ویب سائٹوں کے مطابق 2001ء میں پیدا ہونے والی انتصار الحمادی کے باپ کا تعلق یمن اور ماں کا ایتھوپیا سے ہے۔

حوثی ملیشیا نے مختف الزامات کے تحت یمنی خواتین کے تعاقب کی کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔ ان میں زیادہ تر الزامات جعلی اور بے بنیاد ہیں۔ بین الاقوامی رپورٹوں اور متاثرہ خواتین کی شہادتوں سے اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ حوثی ملیشیا غیر معقول اور عناد پر مبنی الزامات کے تحت سیکڑوں یمنی خواتین کو اغوا کر رہے ہیں۔ بعد ازاں ان خواتین کو تشدد اور عصمت دری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں متاثرہ خواتین کی عکس بندی بھی کر لی جاتی ہے تا کہ انہیں بلیک میل کیا جا سکے۔ یہ تمام عمل حوثیوں کے خواتین ونگ "الزینبیات" کے زیر نگرانی انجام پاتا ہے۔
حوثی ملیشیا نے دارالحکومت صنعاء پر اپنے قبضے کے استحکام کے وقت سے شہر میں واقع قہوہ خانوں، ثقافتی کلبوں اور ریستوروانوں کو بھی بند کر دیا تھا۔ اس کارروائی کے لیے اختلاط کو حیلہ بنایا گیا ہے۔