ایران سے مذاکرات کے حاصلات کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا: سعودی عہدہ دار
سعودی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدہ دار نے ایران سے مذاکرات کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا مقصد علاقائی کشیدگی کا خاتمہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس بات چیت کے حاصلات کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ الریاض ’’قابلِ تصدیق اقدامات‘‘ دیکھنا چاہتا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ میں شعبہ پالیسی پلاننگ کے سربراہ سفیر رائد کریملی نے پہلی مرتبہ دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان براہ راست بات چیت کی تصدیق کی ہے۔انھوں نے برطانوی خبررساں ایجنسی رائیٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’سعودی عرب اور ایران کے درمیان موجودہ مذاکرات کا مقصد خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے طریقوں کی تلاش ہے۔‘‘
انھوں نے کہا:’’ ہمیں امید ہے، یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے لیکن ان سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل ازوقت ہوگا۔ہمارا تجزیہ محض دعووں پر نہیں بلکہ قابل تصدیق اقدامات پر مبنی ہوگا۔‘‘
انھوں نے اس بات چیت کی تفصیل فراہم کرنے سے انکار کیا ہے لیکن علاقائی حکام اور ذرائع نے رائیٹرز کو بتایا ہے کہ دونوں ملکوں نے یمن میں جاری بحران اور 2015ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے شدہ جوہری سمجھوتے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔سعودی عرب نے اس سمجھوتے کی مخالفت کی تھی جبکہ امریکا اس میں دوبارہ شمولیت کے لیے ان دنوں ویانا میں ایران سے مذاکرات کررہا ہے۔
عراق کے صدر برہام صالح نے گذشتہ بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ بغداد سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے ایک سے زیادہ ادوار کی میزبانی کرچکا ہے۔
رائد کریملی نے کہا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے گذشتہ ماہ بڑے واضح لفظوں میں سعودی پالیسی کی وضاحت کی تھی۔انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’مملکت کو ایران کے منفی کردار سے مسئلہ ضرور درپیش ہے لیکن وہ اس کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔‘‘
جنگِ یمن
سعودی عرب اور ایران کے درمیان یمن میں جاری جنگ کے معاملے پر کشیدگی پائی جارہی ہے۔ ایران یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کو اسلحہ مہیا کرنے کے علاوہ ہر طرح کی مالی ،سیاسی اور سفارتی امداد مہیا کررہا ہے جبکہ سعودی عرب یمن میں صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کا حامی ہے اور اسی کی اپیل پر سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد نے یمن میں فوجی مداخلت کی تھی۔
سعودی عرب اور ایران شام اور لبنان میں بھی ایک دوسرے کے مخالف گروپوں کی حمایت کررہے ہیں۔ایران شام میں صدر بشارالاسد اور لبنان میں شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا حامی ہے۔
سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستیں شام میں غیر عرب ممالک ایران ، ترکی اور روس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کرچکی ہیں۔
رائد کریملی نے حالیہ میڈیا رپورٹس کو نادرست قراردیا ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ نے دمشق میں ایرانی یا شامی حکام سے بات چکی تھی۔انھوں نے کہا کہ ’’سعودی عرب کی شام کے بارے میں پالیسی شامی عوام کی حمایت پر مبنی ہے۔شامی مسئلہ کا اقوام متحدہ کی نگرانی میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل تلاش کیا جائے اور اس میں شام کی عرب شناخت ،اتحاد اور سالمیت کو برقرار رکھا جائے۔‘‘