طالبان کا خوف، افغان نسلی اقلیتیں دفاع کے لیے ملیشیا تشکیل دینے لگیں

امریکی، نیٹو افواج کے انخلا کے بعد ایران کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع مل گیا

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد مسلح ملیشیاؤں کی تشکیل کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ملک میں نسلی اقلیتوں نے طالبان کے حملوں سے بچنے کے لیے اپنی اپنی عسکری ملیشیا اور مسلح گروپ بنانا شروع کر دیے ہیں۔

امریکی اخبار"نیویارک ٹائمز" کے مطابق طالبان کی جانب سے میدان جنگ میں تیزی سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے جلو میں افغانستان کی ہزارہ برادری نے ایران کی طرف سے شام کے لیے تشکیل کردہ فاطمیون ملیشیا پر انحصار کرنا شروع کیا ہے۔ فاطمیون ملیشیا کے کچھ ارکان کو ٹریننگ دینے کے بعد یمن بھی بھیجا گیا۔ اس طرح ایران کو افغان سر زمین پر قدم جمانے کا موقع مل سکتا ہے۔

Advertisement

امریکی اخبار میں شائع مضمون میں کہا گیا ہے کہ ہزارہ، افغانستان میں ایک مظلوم اقلیت ہے جسے طالبان اور دوسرے شدت پسند گروپوں کی طرف سے مستقل خطرہ لاحق ہے۔ اپریل میں اس اقلیت نے عسکریت پسندوں کو متحرک کرنے اور انہیں ملیشیا میں ضم کرنا شروع کیا تھا تاکہ افغانستان میں طالبان اور داعش کے خلاف ہزارہ علاقوں کا دفاع کیا جا سکے۔

اس ملیشیا کے کمانڈر نے بتایا کہ اب وہ "خود تحفظ گروپ" کے نام سے سات علاقوں میں 800 مسلح افراد کی کمان کرتے ہیں۔ کمانڈر نے مزید کہا کہ ہزاروں کو شہروں اور شاہراہوں پر مارا جا رہا ہے لیکن حکومت ان کی حفاظت نہیں کر سکتی ہمارے پاس اپنی حفاظت کے لیے بہت کچھ ہے۔

جنگجوؤں اور اسلحہ جمع کرنے کے جنون نے 1990 کی دہائی کے اوائل کے افغانستان کی یاد تازہ کردی ہے۔ جب حریف ملیشیا نے ہزاروں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور کابل کو کھنڈرات میں بدل ڈالا تھا۔

مختلف نسلی اقلیتوں کی ملیشیا، خواہ ان کا تعلق حکومتی اتحاد یا افغان سیکیورٹی فورسز سے ہی کیوں نہ ہو، وہ افغان صدر اشرف غنی کی کمزور حکومت کو تقسیم کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ ملیشیا آخر کار دفاع کی آخری لائن کے طور پر کام کر سکتے ہیں جب سکیورٹی فورسز کے اڈے اور ٹھکانے تیزی سے طالبان کے شدید حملوں کے نتیجے میں ’سررینڈر‘ ہو رہے ہوں گے۔

اپریل میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا گیا تھا، تب سے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز نشر ہوئی ہیں جن میں مسلح افراد اپنی بندوقیں اٹھاتے ہوئے اور طالبان سے لڑنے کا عہد کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ کچھ ملیشیا کے رہ نماؤں کو خوف ہے کہ غیر ملکی افواج کے جانے کے بعد دوحہ میں تعطل کا شکار مذاکرات کا خاتمہ ہو سکتا ہے کیونکہ طالبان صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے اور کابل کا محاصرہ کرنے کے لیے اپنی تمام کارروائیوں کو بروئے کار لائیں گے۔

امریکی فوجی دستے افغانستان میں: فائل فوٹو
امریکی فوجی دستے افغانستان میں: فائل فوٹو

کابل میں قائم ایک تحقیقاتی گروپ افغانستان تجزیہ کار نیٹ ورک نے 4 جون کو ایک رپورٹ میں لکھا کہ 20 سال میں پہلی بار ایسے مسلح طاقتور افراد کو متحرک کرنے اور بھرتی کرنے کے بارے میں کھل کر بات کر رہے ہیں جو سودا بازی کروانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔

ہزارہ اقلیت والوں کو سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی شیعہ اکثریتی گروپ کے ہزاروں افراد کی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے۔ طالبان ہزارہ کو زندیق سمجھے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ہزارہ افراد نے مغربی کابل اور وسطی افغانستان میں اپنے پہاڑی علاقوں میں ترقی پزیر کمیونٹیز بنائیں ہیں۔ لیکن ان کی اپنی کوئی ملیشیا نہ ہونے کی وجہ سے ان پر مسلسل مہلک حملے ہوتےر ہے۔

ہزارہ نے 8 مئی کو کابل میں ہونے والے بم دھماکے میں 69 اسکول کی طالبات کی ہلاکت کے بعد فوج سے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ ایک ماہ سے بھی کم کے بعد دارالحکومت، کابل کے ہزارہ اقلیت کے علاقوں پر تین پبلک ٹرانسپورٹ پک اپ ٹرکوں پر بمباری کی گئی جس میں 18 شہری ہلاک ہوئے۔ ان میں زیادہ ترکا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔

پولیس نے بتایا کہ ہلاک شدگان میں ایک صحافی اور اس کی والدہ بھی شامل ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق سنہ 2016 سے لے کر اب تک صرف 23 حملوں میں دارالحکومت میں کم از کم 766 ہزارہ ہلاک ہوئے ہیں۔

مقبول خبریں اہم خبریں