بائیڈن انتظامیہ کی گولان سے متعلق اپنے موقف کی وضاحت

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

امریکی وزارت خارجہ نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کے حوالے سے جو بائیڈن کی موجودہ انتظامیہ کے موقف میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی سختی سے تردید کی ہے۔ جمعے کی شام اپنی مختصر ٹویٹ میں وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ "گولان کے حوالے سے امریکا کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی اور اس کے برعکس موقف کی عکاسی کرنے والی تمام رپورٹیں جھوٹی ہیں!".

مذکورہ ٹویٹ کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ روز امریکی اخبار "واشنگٹن فری بیکن" نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں اس معاملے کے حوالے سے امریکی موقف میں تبدیلی کی جانب اشارہ کیا گیا تھا۔

Advertisement

اخبار نے وزارت خارجہ کے ایک ذمے دار کے حوالے سے یہ بات نقل کی تھی کہ گولان کا علاقہ کسی سے متعلق نہیں ہے اور اس پر کنٹرول خطے میں مسلسل تبدیل ہوتی ڈائنامکس پر انحصار کو بھی تبدیل کر سکتا ہے۔ اس بیان کو سابقہ موقف سے رجوع سمجھ لیا گیا۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل نے 1967ء میں شام سے جو پہاڑیاں چھین کر قبضے میں لی تھیں وہ 2019ء میں اسرائیل کا حصہ ہوں گی۔

اسی طرح اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 2020ء میں خطے کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس دوران میں انہوں نے یہ باور کرایا تھا کہ امریکا گولان کو ایک مقبوضہ علاقہ شمار کرنے کے حوالے سے کئی دہائیوں سے جاری پالیسی سے سرکاری طور پر دست بردار ہو چکا ہے۔

یاد رہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے قبضے میں لی گئی یہ پہاڑیاں شام کے لیے ایک تزویراتی اور پانی سے بھرپور ٹھکانے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں زیادہ تر ممالک نے اس پر اسرائیل کی خود مختاری تسلیم نہیں کی۔ اقوام متحدہ کی قرار دوادوں میں اسے شام کی مقبوضہ اراضی قرار دیا گیا ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں