حوثیوں کے ہاتھوں لُوٹی گئی رقوم ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے کافی تھیں: یمن
یمن میں حکومت نے حوثی ملیشیا کے زیر کنٹرول علاقوں میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی روکے جانے کی تمام ذمے داری اس ایران نواز باغی ملیشیا پر عائد کی ہے۔ حکومت کے مطابق حوثیوں نے مذکورہ ملازمین کے حالات بہتر بنانے کے لیے تجویز کردہ اقدامات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
یمنی وزیر اطلاعات معمر الاریانی نے پیر کی شام اپنے اکاؤنٹ پر سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا کہ اندازوں کے مطابق 2020ء کے دوران میں حوثی ملیشیا نے تیل کی مصنوعات کی تجارت سے 45 کروڑ ڈالر ٹیلی کمیونی کیشن سے 20 کروڑ ڈالر، ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی سے 65 کروڑ ڈالر، زکات کی آمدنی سے 15 کروڑ ڈالر اور اوقات کی مد میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے 10 کروڑ ڈالر کی رقوم ہتھیا لیں۔
١-تشير التقديرات الى استيلاء مليشيا الحوثي المدعومة من ايران خلال العام2020 على 200مليون دولار من الاتصالات،و 650مليون دولار من الضرائب والجمارك بما فيها ضرائب تجارة الوقود والاتصالات،و 150مليون دولار من إيرادات الزكاة،و100مليون دولار من اموال الاوقاف في المناطق الخاضعة لسيطرتها
— معمر الإرياني (@ERYANIM) June 28, 2021
الاریانی کے مطابق اس بات کے بھی اندازے لگائے گئے ہیں کہ حوثی ملیشیا نے گذشتہ سال ہی بلیک مارکیٹ میں تیل کی مصنوعات کی تجارت، گیس اور بجلی کی نجی طور تجارت، غیر ملکی کرنسی میں سٹے باری، جنگی محنتانے کے نام پر نجی سیکٹروں اور شہریوں سے لوٹ مار اور دیگر غیر قانونی وصولویوں کی مد میں بھی کروڑوں ڈالر کما لیے۔
یمنی وزیر اطلاعات نے باور کرایا کہ 2014ء میں بغاوت کے وقت سے لوٹی گئی رقوم سے گذشتہ پورے چھ سال تک حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں سرکاری ملازمین کو باقاعدگی کے ساتھ تنخواہوں کی ادائیگی ہو سکتی تھی۔ تاہم حوثی قیادت نے یہ ساری رقم اپنے کھاتوں میں جمع کی۔