مصر میں 10 سالہ احمد چار برس کی عمر تک بولنے سے قاصر رہا۔ اس بات نے اس کے گھر والوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا اور وہ اس حوالے سے ماہر طبیوں سے مشاورت پر مجبور ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس بات کی تشخیص ہوئی کہ احمدAsperger syndrome کا شکار ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ " تنہا پن" کی ایک صورت ہے۔ یہ بیماری لغوی قدرت اور حرکت کرنے کی قدرت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ احمد اپنی مادری زبان عربی بولنے پر قادر نہیں جب کہ وہ انگریزی اچھی طرح بول لیتا ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے مصر کے صوبے اسکندریہ میں احمد کے گھر کا رخ کیا تا کہ اس بچے کی کہانی کے بارے میں جانا جا سکے۔

احمد کی والدہ نہلہ ابراہیم نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ ان کے بیٹے نے تاخیر کے ساتھ 4 برس کی عمر میں بولنا شروع کیا۔ احمد کی والدہ کو معلوم نہ تھا کہ بولنے میں تاخیر کا سبب کیا ہے۔
والدہ نے مزید بتایا کہ احمد کی عمر اس وقت 10 برس ہے۔ وہ اپنے گرد عربی میں ہونے والی تمام بات چیت کو سمجھ لیتا ہے۔ وہ ہمارے ساتھ بات چیت کر لیتا ہے مگر انگریزی زبان میں ،،، اس وجہ سے ہم نے اپنی انگریزی کی استعداد کو بہتر بنایا۔ ڈاکٹروں نے یہ ہی مشورہ دیا کہ احمد کے ساتھ انگریزی میں بات چیت کی جائے تا کہ وہ لوگوں سے کٹ کر تنہائی کا شکار نہ ہو۔

نہلہ کے مطابق ابتدا میں احمد پر دباؤ ڈالا گیا کہ عربی سیکھ کر اس میں گفتگو کرے۔ بہت سے اساتذہ نے اسے عربی سکھانے کی کوشش کی۔ تاہم یہ کوششیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔ اسکول میں ابتدائی مرحلے میں احمد کو غیر ملکی بچہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ عربی کے بجائے انگریزی میں گفتگو کرتا تھا۔ تاہم جب بچوں کو یہ معلوم ہوا کہ احمد مصری بچہ ہے تو اس کی کلاس کے بچوں کا رویہ یکسر تبدیل ہو گیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ احمد غرور اور گھمنڈ میں انگریزی بولتا ہے۔ اسی وجہ سے اسکول میں کوئی احمد کا دوست نہ بن سکا۔ احمد کو اسکول میں عربی میں پڑھائے جانے والے مضامین کو سمجھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔