سویڈن : ایران میں 1988ء کی اجتماعی پھانسیاں ، سابق ایرانی جج کے خلاف عدالتی کارروائی
سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں آج پیر کے روز ایران کے ایک سابق جج حمید نوری کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز ہو رہا ہے۔ نوری پر 1988ء میں ایران میں ہزاروں سیاسی قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کارروائیوں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ان سیاسی قیدیوں میں بڑی تعداد "مجاہدین خلق" تنظٰم کے ارکان کی تھی۔
سویڈن کی استغاثہ کے مطابق سویڈن کے پبلک پراسیکیوٹرز نے نوری کو بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں اور قتل کے ارتکاب کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
نوری کو نومبر 2019ء میں سویڈن پہنچتے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
بلک پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ حمید نوری کی شناخت کرج میں گوہر دشت جیل کے پراسیکیوٹر کے معاون کے طور پر کی گئی ہے۔ وہ اجتماعی پھانسیوں کے دوران "ڈیتھ کمیشن" کے آٹھ ارکان میں شامل تھا۔
اسی واسطے سویڈن کی ایک عدالت نے نوری پر "جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، تشدد، جرائم میں شرکت اور مرنے والوں کی لاشیں اہل خانہ کے حوالے نہ کرنے" کے حوالے سے متعدد الزامات عائد کیے ہیں۔
اس وقت سیاسی قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارے جانے پر عمل درامد کی مرکزی ذمے داری "ڈیکھ کمیشن" کے کاندھوں پر تھی۔ یہ کمیشن جن افراد پر مشتمل تھا ان میں موجودہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ، شرعی جج حسین علی نیری، وزارت انٹیلی جنس کا نمائندہ مصطفی پور محمدی اور تہران کا اٹارنی جنرل مرتضی اشرافی شامل ہیں۔
غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس موقع پر 6000 سے زیادہ افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ان میں زیادہ تر مجاہدین خلق تنظیم کے حامی اور ارکان تھے۔ ان افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے احکامات خمینی کی جانب سے جاری کیے گئے تھے۔