امریکی بینکوں میں افغان فنڈز روکنے کے بعد آئی ایم ایف نےافغانستان کی امداد معطل کر دی
بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کی حکومت کے تقریباً ساڑھے نو ارب ڈالر کے فنڈز منجمد کیے جانے کے بعد اب عالمی مالیاتی ادارے نے بھی اعلان کیا کہ وہ افغانستان کو دی جانے والی امداد کو عارضی طور پر معطل کر رہے ہیں۔
افغانستان کے سنٹرل بینک کے گورنر اجمل احمدی نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں افغانستان کے اثاثاجات کی تفصیلات بتائی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ طالبان ان کے عملے سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ اثاثہ جات کہاں ہیں۔
From an IMF spokesperson on Afghanistan: pic.twitter.com/BRsUfAeKGa
— Sarah Ewall-Wice (@EwallWice) August 18, 2021
اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے پاس گذشتہ ہفتے تک تقریباً نوارب ڈالر کے اثاثہ جات تھے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کابل کے سنٹرل بینک میں یہ رقم کیش کی صورت میں موجود ہو۔
انھوں نے بتایا کہ انٹرنیشنل ضوابط کے مطابق افغانستان کے زیادہ تر اثاثہ جات قابلِ فروخت ایسٹس کی شکل میں رکھے گئے جیسے کہ ٹریزری بلز اور سونا۔ تاہم ان کے بیان کے مطابق افغانستان کے زیادہ تر اثاثہ جات تو ملک سے باہر رکھے گئے ہیں۔
انھوں نے کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ افغانستان کے امریکی فیڈرل ریزروو بینک میں تقریباً سات ارب ڈالر ہیں۔ امریکی بلز اور بانڈز میں 3.1 ارب ڈالر ہیں، ورلڈ بینک کے ریزروو اڈوائزری اینڈ میجنمنٹ پارٹنرشپ میں 2.4 ارب ڈالر ہیں۔
This thread is to clarify the location of DAB (Central Bank of Afghanistan) international reserves
— Ajmal Ahmady (@aahmady) August 18, 2021
I am writing this because I have been told Taliban are asking DAB staff about location of assets
If this is true - it is clear they urgently need to add an economist on their team
ان کے علاوہ بین الاقوامی اکاؤنٹس میں افغانستان کے 1.3 ارب ڈالر ہیں اور دنیا بھر کے سنٹرل بینکس کے مشترکہ ادارے بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹس میں 700 ملین ڈالر ہیں۔یہ تمام اثاثہ جات تو ملک سے باہر ہیں۔
ان کے علاوہ 1.2 ارب ڈالر کا سونا 300 ملین ڈالر کیش بینک کی ملکیت ہیں تاہم اس وقت یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں کتنا افغانستان کے اندر ہے اور کتنا افغانستان کے باہر۔
افغانستان کے مرکزی بینک کے قائم مقام سربراہ اجمل احمدی نے اپنی سلسلے وار ٹوئٹس میں کہا ہے کہ انہیں فنڈز کی نئی رسد آنے کی توقع نہیں ہے، کیونکہ بقول ان کے، ہمارے پارٹنرز کو پتا ہے کہ کابل میں کیا ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان پر پابندیاں عائد ہیں اور کسی ایسے منظرنامے کی توقع نہیں ہے جس میں طالبان کو ان فنڈز تک رسائی دے دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ افغانستان کے بینکوں نے اپنے صارفین کو بتا دیا ہو گا کہ وہ ان کے ڈالر واپس نہیں کر سکتے، کیونکہ مرکزی بینک سے انہیں ڈالر فراہم نہیں ہو رہے۔ اس لیے نہیں کہ فنڈ چوری ہو گئے ہیں بلکہ اس لیے کہ بیرونی ملکوں نے انہیں منجمد کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے فوجی فتح تو حاصل کر لی ہے لیکن اب حکومت کرنے کا معاملہ ہے اور فنڈز کے بغیر یہ آسان نہیں ہو گا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں افغانستان کی معیشت میں غیر ملکی فنڈز کا حصہ 43 فی صد تھا۔
اجمل احمدی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ غیرملکی فنڈز کےرکنے سے ملکی کرنسی کی قدر میں کمی ہو گی جس سے افراط زر اور مہنگائی بڑھے گی اور ایک غریب ملک میں غریب کے لیے زندگی گزارنا مزید مشکل ہو جائے گا کیونکہ کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہو جائیں گی۔
بلوم برگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فنڈز تک رسائی روکنے کے لیے واشنگٹن نے کابل کو نقد رقوم کی فراہمی روک دی ہے جس کا اثر وہاں کی معیشت پر ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔