افغانستان وطالبان

کابل میں طالبان نے افغان خواتین کی احتجاجی ریلی اچانک ہوائی فائرنگ سے منتشرکردی

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خواتین نے ہفتے کے روزاحتجاجی مظاہرہ کیا ہے لیکن طالبان نے انھیں اچانک ہوائی فائرنگ کرکے منتشرکردیا ہے۔

کابل میں خواتین نے طالبان کی نئی حکومت میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے پرامن طریقے سے مارچ کاآغاز کیا تھا۔انھوں نے وزارت دفاع کے باہر ان افغان فوجیوں کے اعزازمیں پھولوں کی چادر چڑھائی جو گذشتہ مہینوں میں طالبان سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوگئے تھے۔اس کے بعد مارچ کی شرکاء خواتین صدارتی محل کی جانب بڑھنے لگیں۔

مظاہرے میں زیادہ نوجوان افغان خواتین اور جامعات کی طالبات شریک تھیں۔20 سالہ مریم نائبی نے صحافیوں کو بتایا کہ ’’ہم یہاں افغانستان میں انسانی حقوق حاصل کرنے کے لیے آئی ہیں۔میں اپنے ملک سے محبت کرتی ہوں۔ میں ہمیشہ یہیں رہوں گی۔‘‘

جب صدارتی محل کے باہرخواتین نعرے بازی کرنے لگیں تو طالبان کے متعدد اہلکار ان کے پاس آگئے اور ان سے ان کے مطالبات کے بارے میں دریافت کرنے لگے۔مظاہرے میں شریک 24 سالہ طالبہ سودابہ کبیری نے انھیں بتایا کہ پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو تمام حقوق دیے ہیں اور وہ اپنے یہی حقوق چاہتی ہیں۔

طالبان عہدے داروں نے اپنے حالیہ بیانات میں خواتین کو ان کے حقوق دینے کے وعدے کیے ہیں لیکن نوجوان افغان خواتین ان وعدوں کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہیں۔

جب مظاہرے میں شریک خواتین صدارتی محل پہنچ گیئں تو طالبان کے درجن بھرخصوصی دستوں نے ہجوم میں گھس کرہوائی فائرنگ شروع کردی،اس پرخواتین نے ہراساں ہوکرادھر ادھربھاگ شروع کردیا اور یوں مظاہرے کی شرکاء خواتین منتشرہوگئیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولےبھی چلائے ہیں۔

ایک افغان یونیورسٹی کی 24 سالہ طالبہ فرحت پوپلزئی کا کہنا تھاکہ وہ افغانستان کی ایسی بے آواز خواتین کی آواز بننا چاہتی ہیں جو سڑک پر نکلنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’’میں ان خواتین کی آواز ہوں جو بولنے سے قاصر ہیں۔‘‘ان کے خیال میں یہ صرف ایک مرد کا ملک نہیں بلکہ یہ ایک عورت کا ملک بھی ہے۔

بعض خواتین نے بتایا کہ وہ اپنے خاندانوں کی مخالفت کے باوجود کابل میں اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلی ہیں۔پوپلزئی اور اس کی ساتھی مظاہرین کو طالبان کی پہلی حکومت تو یاد نہیں لیکن ان سے متعلق ان کا خوف ان کہانیوں پرمبنی ہے جو انھوں نے طالبات کواسکول جانے اورخواتین کو کام کرنے کی اجازت نہ دینے کے بارے میں سن رکھی ہیں۔

بیس سالہ نائبی افغان خواتین کی ایک تنظیم چلارہی ہیں اور افغانستان کی پیرالمپکس کمیٹی کی ترجمان بھی ہیں۔انھوں نے ان ہزاروں افغانوں کے معاملات ملاحظہ کیے ہیں جو 15 اگست کو طالبان کے دارالحکومت پر قبضے کے بعد ملک سے فرار کے لیے کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچ گئے تھے۔انھوں نے کہا کہ ہم لوگ خوفزدہ تھے لیکن اس کے لیے لڑائی افغانستان ہی میں لڑی جاسکتی ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں