افغانستان میں طالبان تحریک نے ملک کا مکمل کنٹرول سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ تعلیم اور کام کے شعبوں میں شریعت کی تعلیمات کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرے گی، تاہم زمینی حقائق اور اعداد وشمار اس کے برعکس تصویر دکھا رہے ہیں۔
اس حوالے سے تازہ ترین پیش رفت میں دارالحکومت کابل کی بلدیہ کے عبوری سربراہ نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان حکام نے مذکورہ بلدیہ کی کئی خواتین ملازمین کی برطرفی کے احکامات جاری کیے ہیں۔
VIDEO: No work for a woman if a man can replace her.
— AFP News Agency (@AFP) September 20, 2021
Women municipal workers in Kabul will not be allowed to return to work unless they occupy "positions that men could not fill or that were not for men", says Taliban Mayor of Kabul. The other women must "stay at home" pic.twitter.com/w9kyQudyI0
بلدیہ کے سربراہ حمد اللہ نعمونی نے پیر کے روز صحافیوں کو بتایا کہ صرف اُن خواتین کو کام پر آنے کی اجازت دی جائے گی جن کا مرد مبتادل میسر نہیں۔ ان میں ڈیزائننگ اینڈ انجینرنگ کے شعبے کی ماہر خواتین کے علاوہ عورتوں کے لیے پبلک بیت الخلا کی دیکھ بھال کرنے والی خواتین شامل ہیں۔

نعمونی نے واضح کیا کہ بلدیاتی انتظامیہ کی ان خواتین اہل کاروں کے حوالے سے "حتمی" فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔
طالبان تحریک کے ان اقدامات نے اس کے پہلے دور حکومت کے سخت گیر فیصلوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اس دور میں طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کو اسکول جانے اور کام کرنے سے روک دیا تھا۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ ملک کے اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے سے قبل بلدیہ کے کُل ملازمین میں خواتین کا تناسب ایک تہائی سے کچھ کم تھا۔