افغانستان کے شہر قندھار کی امام بارگاہ میں نماز کے وقت دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 62
افغانستان میں حکام کے مطابق جنوبی شہر قندھار کی ایک مسجد میں خودکش دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ تعداد 62 ہو گئی ہے جبکہ 68 افراد زخمی بتائے جاتے ہیں۔ چند روز قبل قندوز شہر کی شیعہ مسجد میں کیے گئے خودکش حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم دولتِ اسلامیہ [داعش] نے قبول کی تھی۔
قندھار کے ایک ہسپتال کے ترجمان نے خبر رساں ادارے ’’اے ایف پی‘‘ کو بتایا کہ ’اس ہسپتال میں ابتدائی طور پر 32 لاشیں اور 53 زخمی لائے گئے۔‘ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق دھماکا شہر کے وسطی علاقے میں نماز جمعہ کے سب سے بڑے اجتماع کے دوران ہوا۔ ایک مقامی طالبان اہلکار نے بتایا کہ ’ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ایک خودکش دھماکا تھا جس میں حملہ آور نے مسجد نے اندر خود کو اُڑا دیا۔‘

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق کم از کم 33 افراد جاں بحق اور 73 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مقامی سینٹرل میر واعظ ہسپتال میں 32 لاشیں لانے کی بھی طبی اہلکاروں نے تصدیق کی ہے۔ کابل سے وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں مسجد میں ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ طالبان حکومت نے مسجد میں ہونے والے دھماکوں کو خودکش حملہ قرار دیا ہے۔
مقامی حکومتی اہکاروں نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ دھماکے کی نوعیت اور وجوہات کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ اندازوں کے مطابق دھماکے کے وقت مسجد میں قریب پانچ سو افراد موجود تھے۔
جس وقت دھماکا ہوا، اس وقت ایک بڑی تعداد میں شیعہ مسلک کے افراد عبادت میں مصروف تھے۔ قندھار کی مقامی طالبان انتطامیہ نے بھی اس دھماکے کی تصدیق کر دی ہے۔ طالبان حکومت کی وزراتِ داخلہ نے بھاری انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق ہر جمعہ کو قندھار شہر کے مرکزی حصے میں واقع اس مسجد میں کثیر تعداد میں شیعہ عقیدے کے افراد نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ قندھار کی سابق صوبائی کونسل کے رکن نعمت اللہ وفا نے نیوز ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ دھماکا امام بارگاہ کی مسجد میں ہوا۔

عینی شاہدین کے مطابق دھماکوں کے بعد مسجد سے دھوئیں اور دھول مٹی کو اڑتے دیکھا گیا۔ ان کے مطابق ایک دھماکا مسجد کے مرکزی دروازے پر، دوسرا مسجد کے جنوبی حصے میں جہاں وضو کیا جا تا ہے اور تیسرا مرکزی ہال میں، جہاں نماز ادا کی جا رہی تھی، ہوا۔ شیعہ مسجد کے فیس بک پیج پر لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ خون کا عطیہ دیں کیونکہ اس وقت شدید زخمی افراد کو خون کی اشد ضرورت ہے۔
دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد شہری انتظامیہ اور سکیورٹی حکام مسجد کے باہر پہنچ گئے تھے۔ طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے میڈیا کو بتایا کہ انتظامی وسکیورٹی حکام دھماکے کی تفصیلات اور اس سے جڑی اشیا و معلومات جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ ترجمان نے بتایا کہ اسلامی امارت کے سکیورٹی اہلکاروں نے مسجد کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔
ذمہ دار کون؟
اس دھماکے کی ذمہ داری کسی گروپ نے ابھی تک قبول نہیں کی لیکں نظریں جہادی دہشت گرد گروپ دولتِ اسلامیہ (داعش) کی جانب ہیں۔ دہشت پسند گروپ نے چند روز قبل قندوز کی شیعہ امام بارگاہ میں کیے گئے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ قندوز حملے میں چالیس سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
-
افغانستان: قندوز کی مسجد میں خود کش حملہ، 60 افراد جاں بحق، 140 زخمی
طالبان حکام اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جمعے کو افغانستان کے شمالی شہر قندوز کی ایک مسجد میں خود کش حملہ ہوا ہے جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق ... صفحة اول -
افغانستان : مسلح حملے میں دو طالبان اور ایک صحافی سمیت 4 افراد ہلاک
افغانستان کے صوبے ننگرہار میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں چار افراد ہلاک ہو گئے۔ مرنے والوں میں تحریک طالبان کے دو ارکان ، ایک مقامی صحافی اور ایک ... بين الاقوامى -
القاعدہ اورداعش اگلے 6 سے 36 ماہ میں افغانستان میں دوبارہ منظم ہوسکتے ہیں:امریکی جنرل
امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک اے میلے نے کہا ہے کہ اس بات کا’’حقیقی امکان‘‘ہے کہ طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد اگلے چھے سے 36 ماہ کے ... بين الاقوامى