چین کے جوہری صلاحیت کے حامل ہائپرسونک میزائل کے تجربہ کی اطلاعات پرامریکا’مشوش‘
امریکا کے تخفیف اسلحہ کے سفیررابرٹ ووڈ نے کہا ہے کہ ان کے ملک کوچین کے اگست میں جوہری صلاحیت کے حامل ہائپرسونک میزائل کے ممکنہ تجربے سے متعلق اطلاعات پر’بہت زیادہ تشویش‘لاحق ہے۔
ووڈ نے جنیوا میں سوموار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ہائپرسونک ٹیکنالوجی کے بارے میں ہم بہت فکرمند رہے ہیں، ہم نے اس ٹیکنالوجی پرکام روک دیا ہے اور ہم اس ٹیکنالوجی کے فوجی مقاصد کے اطلاق پربھی کسی مزید پیش رفت سے باز آچکے ہیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے چین اورروس کو اس ٹیکنالوجی کے استعمال اور فوجی مقاصد کے لیے اس کو بہت فعال طریقے سے آگے بڑھاتے دیکھا ہے،لہٰذا ہمیں صرف ایک طرح سے جواب دینا پڑرہا ہے اور فی الوقت ہم نہیں جانتے کہ اس ٹیکنالوجی کے خلاف کیسے دفاع کرسکتے ہیں۔ چین اور روس بھی اس بارے میں بے خبرہیں۔‘‘
دریں اثناء چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے بیجنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ چین نے اگست میں جوہری صلاحیت کے حامل ہائپرسونک میزائل کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ وہ اس سے متعلق خبروں کی تردید کرتا ہے اورواضح کرتا ہے کہ اس کے بجائے اس نے خلائی جہازوں کی معمول کی جانچ کی تھی۔
فنانشل ٹائمز نے اس معاملے سے آگاہ پانچ بے نام ذرائع کے حوالے سے ہفتے کے روزخبر دی تھی کہ چین نے ایک ہائپرسونک میزائل داغا تھا۔اس نے لینڈنگ سے قبل سیارے کے گردایک چکرمکمل کیا تھاجس سے اس کا ہدف غائب ہوگیا تھا۔
واضح رہے کہ روایتی بیلسٹک میزائلوں کی طرح ہائپر سونک میزائل بھی آوازکی رفتارسے پانچ گنا زیادہ تیز پرواز کرسکتے ہیں لیکن وہ بیلسٹک میزائل سے زیادہ کارگرہوتے ہیں اور انھیں فضا میں صرف محدود راستے کی ضرورت ہوتی ہے جس سےان کا دفاع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ترجمان لی جیان کا کہنا تھا کہ خلائی جہاز کی قابل استعمال ٹیکنالوجی کی تصدیق کے لیےخلائی گاڑی کا یہ معمول کا تجربہ تھا۔اس کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا تھا کہ استعمال کی لاگت میں کیا کمی واقع ہوتی ہے اور بنی نوع انسان کی خلا میں دوطرفہ نقل وحمل کے لیے اس گاڑی کا استعمال ایک آسان اورسستے ذریعے کے طور پرکس قدراہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔
لی جیان نے کہا کہ دنیا بھرمیں متعدد اورکمپنیوں نے بھی اسی طرح کے تجربات کیے ہیں۔فنانشیل ٹائمز کی رپورٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر انھوں نے یہ بات زوردے کرکہی کہ’’یہ ہائپرسونک میزائل نہیں،بلکہ خلائی گاڑی تھی۔‘‘