براعظم افریقا کے لیے واشنگٹن کے خصوصی ایلچی جیفری فیلٹمین کا کہنا ہے کہ امریکا کو اُن رپورٹوں پر گہری تشویش لاحق ہو رہی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ سوڈان میں اقتدار کی باگ ڈور فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔
امریکی ایلچی کے مطابق آج صبح سوڈان میں متعدد وزراء کی گرفتاری اس آئینی دستاویز کی مخالفت ہے جس کے تحت ملک میں عبوری حکومت قائم ہے۔ اس حکومت میں عسکری اور شہری دونوں نوعیت کی شراکت داری ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ طاقت کے زور پر حکومت میں کسی بھی تبدیلی سے سوڈان کے لیے امریکی سپورٹ کو سنگین خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
Following with utmost concern ongoing events in #Sudan.
— Josep Borrell Fontelles (@JosepBorrellF) October 25, 2021
The EU calls on all stakeholders and regional partners to put back on track the transition process.
ادھر یورپی یونین نے بھی سوڈان کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یونین میں خارجہ پالیسی کے رابطہ کار جوزپ بورل نے اپنی ٹویٹ میں متعلقہ فریقوں اور علاقائی شراکت داروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عبوری حکومت کی راہ پر واپس لوٹیں۔
اس سے قبل العربیہ اور الحدث چینلوں کی نامہ نگار نے بتایا تھا کہ آج پیر کی صبح وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کی حکومت کے متعدد وزراء ، حکومت اور خود مختار کونسل کے ذمے داران اور حکومت کی حامی کئی جماعتوں کے عہدے داران کو گرفتار کر لیا گیا۔
سوڈانی وزارت اطلاعات کے مطابق عسکری فورسز نے آج وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کے گھر پر چھاپا مارا اور جب وزیر اعظم نے "انقلاب" کے مطالبے کے سامنے سر نہیں جھکایا تو انہیں نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔
دارالحکومت خرطوم کی سڑکوں پر اس وقت بھی مشتعل احتجاجیوں کے جتھے موجود ہیں۔ ان افراد نے ٹائروں کو آگ لگائی۔ انہوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں جن میں "شہری حکومت" کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا ہے اور گرفتاریوں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن نے آج تمام ہم وطنوں کو سڑکوں پر نکل آنے کی کال دی تا کہ کسی بھی فوجی انقلاب کو مسترد کرتے ہوئے 2019ء میں ہونے والی تبدیلی کا تحفظ ہو سکے۔
ادھر ملک میں ڈاکٹروں کی انجمن نے اپنے تمام متعلقین پر زور دیا ہے کہ وہ ملک بھر میں عسکری ہسپتالوں میں کام روک دیں۔ اسی طرح بینکاروں کی ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں عام ہڑتال اور شہری نافرمانی کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ ستمبر میں انقلاب کی ناکام کوشش کے بعد سے حکومت میں شامل شہری اور عسکری حکام کے بیچ تناؤ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔