’والد بیمار ہوئے تو17 سالہ بیٹی نے خاندان کی کفالت کا بیڑا اٹھا لیا‘
پڑھائی کے ساتھ خاندان کی کفالت کرنے والی نورطارق کی ہمت افروز کہانی
مصر کی ایک سترہ سالہ طالبہ میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز ہے جس نے اپنی پڑھائی کے اخراجات پوری کرنے کے لیے خود کفالت کے ساتھ خاندان کی کفالت کی بھاری ذمہ داری بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا رکھی ہے اور وہ کامیابی سے یہ ذمہ داری انجام دے رہی ہے۔
نور طارق اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے اور مدد کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ وہ صبح کو کالج جاتی ہے اور شام کو جگر کے سینڈوچ بیچتی ہے۔
قاہرہ میں رہنے والی نور انڈسٹریل سیکنڈری اسکول ڈیکوریشن ڈیپارٹمنٹ میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہیں۔ وہ صبح اپنے اسکول جاتی ہیں۔ شام کو وہ ایک کارٹ پر کام کرتی ہیں جس میں وہ سینڈوچ بیچتی ہیں۔ نور کے والد پہلے اسی ریڑھی پر کام کرتے تھے مگراب وہ بیمار ہیں اور اْنکھوں کی سرجری کی وجہ سے کام نہیں کر پاتے۔
نور نے جب دیکھا کہ اس کے والد کام نہیں کرسکتے ہیں تو اس نے اپنے اخراجات اور گھر کے اخراجات کا انتظام کرنے کے لیے اپنے والد کے کام کو خود سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ خاندان نے اسے ایسا کرنے کی ترغیب اور حوصلہ دیا۔
"العربیہ ڈاٹ نیٹ" سے بات کرتے ہوئے نور طارق نے کہا کہ اسے یہ کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ ایک لڑکی ہونے کے باوجود اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئی، نہ ہی اسے ہراساں کیا گیا۔ اگر اسے کوئی خطرہ درپیش ہوا تو وہ اس اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں نور نے انکشاف کیا کہ جب اس نے پہلے روز کام سنبھالا تو دکان پر بہت رش تھا جس پر اسے کچھ دقت بھی ہوئی مگر وقت گذرنے کے ساتھ اسے اس کی عادت پڑ گئی اور اس نے تمام صارفین کے لیے فوری طور پر سینڈویچ تیار کرنے کی تربیت حاصل کی۔ اب اسے تعداد کی پرواہ نہیں۔ وہ ریکارڈ وقت میں اپنے گاہکوں کو سینڈوچ بنا دیتی ہے۔
نور نے اپنے اوقات کو پڑھائی اور کام کے درمیان تقسیم کیا ہے۔ اس نے دن کا پہلا حصہ پڑھائی لکھائی کے لیے وقف کیا ہے جب کہ شام کو وہ کام کرتی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ کالج آف اپلائیڈ آرٹس، ڈپارٹمنٹ آف ڈیکوریشن میں داخلہ لینا اور مستقبل میں بطور انٹیریئر انجینئر کام کرنا میرا خواب ہے۔مجھ فخر ہے کہ میں ایک جگر فروش کی بیٹی ہوں اور اپنے ہاتھ سے کماتی اور سینڈوچ بنا کر اپنی پڑھائی اور خاندان کے اخراجات پوری کر لیتی ہوں۔