چند روز قبل متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زائد آل نہیان کے شام کے دورے اور اس سے قبل اردن کے شام کے ساتھ سمجھوتوں نے ان سوالات کو جنم دیا ہے کہ آیا دمشق کی عرب کیمپ میں واپسی کا امکان ہے۔
اس سلسلے میں اردن کی ایک دستاویز اور اس کے خفیہ ضمیمے میں انکشاف ہوا ہے کہ دمشق کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی بحالی کا حتمی ہدف 2011ء کے بعد شام میں داخل ہونے والی تمام غیر ملکی افواج اور غیر ملکی جنگجوؤں کا انخلا ہے۔
مذکورہ دستاویز سے واضح ہوتا ہے کہ غیر ملکی افواج کا انخلا سلسلہ وار عمل میں آ سکتا ہے۔ عربی روزنامے الشرق الاوسط کی آج کی رپورٹ کے مطابق اس کا آغاز شام کے متعین حصوں میں ایرانی نفوذ پر روک لگانا اور روس کے قانونی مفاد کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہو گا۔
عرب دنیا سے قربت سے دمشق کو فوائد حاصل ہوں گے۔ ان میں مصر اور اردن سے شام کے راستے "عرب گیس لائن" کا لبنان تک جانا اور امارات کی جانب سے شام میں شمسی توانائی کا اسٹیشن قائم کرنا اور ممکنہ طور پر شام پر عائد امریکی پابندیوں کا اٹھایا جانا شامل ہے۔

واضح رہے کہ اردن نے یہ دستاویز یا منصوبہ کئی ماہ قبل تیار کر لیا تھا۔ اردن کے فرماں روا شاہ عبداللہ الثانی جولائی میں امریکی صدر جو بائیڈن اور اگست میں روسی صدر ولادی میر پوتین کے علاوہ عرب اور غیر ملکی قیادت کے ساتھ اس دستاویز کو زیر بحث لا چکے ہیں۔
یہ دستاویز عرب ممالک کی جانب سے دمشق کے حوالے سے کیے گئے متعدد اقدامات کی بنیاد بنی۔ ان میں شامی وزیر خارجہ فیصل المقداد کی نیویارک میں 9 عرب وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات ، اردن اور شام کے درمیان سرکاری سطح پر دورے اور عرب قیادت کے شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ رابطے شامل ہیں۔
یاد رہے کہ 2011ء میں شام میں عوامی انقلابی تحریک اور خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے زیادہ تر عرب ممالک نے شامی صدر بشار الاسد کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ بشار حکومت نے عوامی احتجاج کو بد ترین کریک ڈاؤن کے ذریعے کچلا۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں لاکھوں شامی پناہ گزین پہنچ گئے جب کہ لاکھوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔