افغانستان کی طالبان انتظامیہ نے سرکاری ملازمین کو واجب الادا تنخواہوں کی ادائیگی شروع کر دی ہے۔ افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی (کئی مہینوں سے) رُکی ہوئی تنخواہوں کی سنیچر سے ادائیگی شروع ہو جائے گی۔
اطلاعات کے مطابق زیادہ تر سرکاری ملازمین ابھی تک کام پر واپس نہیں آئے ہیں اور بہت سے لوگوں خاص کر دیہی ملازمین کو طالبان کے اقتدار پر کنٹرول سے پہلے بھی مہینوں تک تنخواہ نہیں دی گئی تھی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر میں اپنے پیغام میں لکھا کہ ’وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ آج سے تمام سرکاری ملازمین اور عملے کو پچھلے تین مہینوں کی تنخواہوں کی مکمل ادائیگی ہو جائے گی۔‘
فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے یہ فنڈز کہاں سے آئے ہیں۔
د اسلامي امارت د مالیې وزارت وایي چې سر له نن څخه د ټولو دولتي کارمندانو د۳ میاشتو(سنبلې، میزان او عقرب)معاشات په یوه ځای اجراء کیږي.
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) November 20, 2021
وزارت مالیه امارت اسلامي افغانستان میگوید که، سر از امروز معاشات ۳ ماهه ( سنبله، میزان و عقرب ) کارمندان دولتی يکجا پرداخته میشود.
وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل کا کہنا تھا کہ ’ہم آج سے تنخواہوں کی ادائیگی شروع کردیں گے اور 3 ماہ کی تنخواہ ادا کریں گے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ملازمین کو 23 اگست سے اب تک کی تنخواہ ادا کی جائے گی اور کچھ سرکاری ملازمین کوطالبان کے قبضے سے پہلے والے مہینے کی بھی ادائیگی کی جائے گی۔
ادائیگی ملک کے بینکنگ سسٹم کے ذریعے کی جائے گی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے ’مفلوج‘ نہیں ہوا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسے معمول کے مطابق فعال ہونے میں کچھ وقت لگے گا‘ تاہم حکومتی اہلکاروں کی اب تک ان کی پوری تنخواہوں تک رسائی نہیں ہوگی۔
اگست سے افغانستان کا بینکنگ سیکٹر تباہ ہے اور جن لوگوں کی رقوم بینکس میں موجود تھیں انہیں ہفتہ وار 200 سے 400 ڈالرز نکالنے کی پابندی کی وجہ سے اپنے فنڈز تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
واشنگٹن نے کابل کے لیے اپنے ریزرو میں رکھے ہوئے تقریباً 10 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردیے تھے جبکہ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے افغانستان کی فنڈنگ تک رسائی روکنے کے بعد مالی بحران مزید بڑھ گیا تھا۔
امریکا کی سربراہی میں غیر ملکی عطیات دہندگان نے افغانستان کی گزشتہ حکومت کے 20 سالہ دور میں سرکاری اخراجات کا 75 فیصد حصہ فراہم کیا۔ تیزی سے بگڑتی صورتحال نے افغانوں کو مقامی کرنسی کی قدر میں کمی اور آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کے ساتھ اپنی گھریلو اشیا فروخت کرنے اور اشیائے خور ونوش کے لیے رقم اکٹھی کرنے پر مجبور کیا۔
حکومت کے محکمہ ریونیو کے ترجمان معراج محمد معراج نے کہا کہ 2 سے ڈھائی ماہ کے عرصے میں 26 ارب افغانی (تقریباً 27 کروڑ 70 لاکھ ڈالر) ریونیو حاصل کرنے کے بعد اب حکام تنخواہیں ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ایک نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت تمام شعبہ جات فعال نہیں بلکہ صرف 20 سے 25 فیصد معیشت فعال ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکام غریب لوگوں اور یتیموں کے لیے امدادی منصوبوں کی غرض سے ایک نیا اسلامی ٹیکس متعارف کرائیں گے۔
-
امریکا میں پاکستان میں مقیم تین طالبان معاونین کے اثاثے منجمد
امریکیوں پر طالبان مددگاروں سے کاروباری روابط پر پابندی پاكستان -
طالبان ،امریکہ اور ہمارا مخمصہ
اگرچہ بعض اخبارات نے حکیم اللہ محسود کو جاں بحق لکھا ہے مگر شہید کسی نے قرار نہیں دیا حالانکہ ڈرون حملوں میں مرنے والے پاکستانیوں کو شہید ہی سمجھا ... سیاست -
تبدیل شدہ نوازشریف۔ طالبان، زرداری اور امریکہ؟
مسلم لیگ (ن) کی انتخابی جیت اور پی پی پی کی انتخابی شکست کے بعد متوقع وزیراعظم نواز شریف اور صدر زرداری نے اپنی اپنی پارٹی کے منتخب اراکین قومی و ... سیاست -
منجمد اثاثے بحال کر کے افغانستان کو انسانی بحران سے بچایا جا سکتا ہے: پاکستان
دنیا کو طالبان حکومت تسلیم کرنے کی عجلت نہیں: شاہ محمود قریشی پاكستان