طالبان کی الظواہری پر ڈرون حملے کے بعد لمبی مشاورت مکمل
طویل خاموشی ابھی تک جاری۔ ڈرون حملے جاری رکھنے کا امریکی عندیہ
القاعدہ سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو کابل میں ڈرون حملے سے ٹارگٹ کیے جانے کے بعد طالبان نے بدھ کے روز امریکا کو اس ڈرون حملے پر جواب دینے کے لیے سر جوڑ لیے۔ ایمن الطواہری کو کابل میں ہدف بناے کے اس بڑے واقعے پر طالبان نے تقریبا خاموشی برقرار رکھی ہوئی ہے۔
دوسری طرف امریکہ نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ القاعدہ سربراہ کو اس وقت ڈرون سے نشانہ بنایا گیا جب وہ صبح سویرے اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے تھے۔ اس واقعے کو القاعدہ کے لیے اسامہ بن لادن کے بعد سب سے بڑے دھچکے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
مگر طالبان نے ڈرون حملے کا تو کابل میں ذکر کیا ہے الظواہری کے نشانہ بننے کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
امریکا کے ذمہ دار نے اپنی شناخت کے عدم اظہار کی شرط پر کہا ہے کہ ' امریکی ڈرون حملے آئندہ بھی جاری رکھنے کا اشارہ دیا ہے، تاکہ ڈرون حملوں کے ذریعے یہ یقینی بنایا لیا جائے افغانستان دوبارہ امریکا کے خلاف القاعدہ کی پناہ گاہ نہیں بنے گا۔'
اس ذریعے کا کہنا تھا ' ہم چوکس رہیں گے اور بوقت ضرورت کارروائی کرے گا۔ جیسا کہ ہم نے اس ہفتے کے دوران کیا ہے۔' نیز یہ بھی کہا صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ اس تک طالبان کے ساتھ رابطے میں رہے گی جب تک یہ امریکی مفاد میں ہو گا۔'
ادھر کابل میں القاعدہ کے دیرینہ اتحادی اسلامی گروپ نے اتوار کے روز ہونے والے ڈرون حملے کی تو تصدیق کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ جس گھر پر حملہ کیا گیا ہے وہ خالی تھا۔'
اب طالبان کی اعلی سطح کی میٹنگ ہونے کے بعد بھی یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ اگر وہ ڈرون حملے کا رد عمل دینے کا طے کرتے ہیں تو اس کا موزوں طریقہ کیا اختیار کرتے ہیں۔
طالبان سے متعلق ذریعے کا کہنا تھا یہ میٹنگ دو دن جاری رہی۔ لیکن اس میں کیا طے کیا گیا ہے یہ بتانے سے معذرت کی ۔ اس ذریعے نے یہ بھی تصدیق نہیں کی کہ امریکی ڈرون نے الظواہری کے گھر کو ہی نشانہ بنایا تھا۔'
اپنی حکومت کو عالمی برادری سے تسلیم کرانے اور امریکا کے ہاں منجمد کیے گئے اربوں ڈالر کی موجودگی میں طالبان کا جو بھی رد عمل ہو گا غیر معمولی ہو گا۔ امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کو بچیوں کی تعلیم کے ایشو پر کہا جاتا رہے گا۔'
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کے مطابق طالبان نے الظواہری کو پناہ دے کر 2020 کے امریکا طالبان معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، کہ اس معاہدے میں طالبان نے تسلیم کیا تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔'