افغانستان وطالبان

افغانستان:طالبان کی14 مجرموں کوکوڑے مارنے کی پہلی مرتبہ تصدیق

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

افغانستان میں ایک عدالت کے حکم پربدھ کے روزتین خواتین اور11مردوں کو کوڑے مارے گئے ہیں۔انھیں چوری اور’اخلاقی جرائم‘ کا مرتکب پایاگیا تھا اورعدالت نے انھیں کوڑے مارنے کی سزاسنائی تھی۔

طالبان کے سپریم لیڈرنے رواں ماہ ججوں کو اسلامی قانون یا شریعت کے مکمل نفاذکا حکم دیا تھا۔اس کے بعد پہلی مرتبہ کوڑے کی سزاؤں کی تصدیق کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ بعض جرائم کے لیے جسمانی سزا لازمی ہے۔

Advertisement

صوبہ لوگر میں طالبان حکومت کے اطلاعات وثقافت کے سربراہ قاضی رفیع اللہ صمیم نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ کوڑے سرعام نہیں مارے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا:’’چودہ افراد کو تعزیری سزا سنائی گئی تھی۔ان میں 11 مرداور تین خواتین تھیں۔ان میں کسی بھی فرد کوزیادہ سے 39 کوڑے مارے گئے ہیں‘‘۔

طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے رواں ماہ ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اسلامی قانون میں بیان کردہ سزاؤں کا مکمل نفاذ کریں۔ان میں سرعام پھانسی، سنگساری اور کوڑے مارنا اور چوروں کے جسمانی اعضاء کاٹنا شامل ہیں۔

طالبان کے ترجمان کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’’چوروں، اغوا کاروں اور بغاوت کرنے والوں کی فائلوں کا بغورجائزہ لیں اوروہ فائلیں جن میں حدود اور قصاص کی تمام شرعی شرائط پوری ہو چکی ہوں، آپ پرعمل کرناواجب ہے‘‘۔

حدود سے مراد وہ جرائم ہیں جن کے لیے جسمانی سزا لازمی ہے، جبکہ قصاص کا ترجمہ ’’بدلہ یا انتقام‘‘ کیا جاتاہے۔یعنی آنکھ کے بدلےآنکھ ، ناک کے بدلے ناک اور خون کے بدلے خون۔

سوشل میڈیا گذشتہ چند ماہ سے طالبان جنگجوؤں کی ویڈیوزاور تصاویر سے بھرا پڑا ہے۔ان میں وہ مختلف جرائم کے مرتکب افراد کوکوڑے مارتے دکھائی دے رہے ہیں۔تاہم یہ پہلا موقع ہے جب حکام نے کسی عدالت کی جانب سے دی گئی اس طرح کی سزا پر عمل درآمدکی تصدیق کی ہے۔

قبل ازیں طالبان کی سپریم کورٹ نے گذشتہ پیر کے روز یہ اطلاع دی تھی کہ رواں ماہ افغانستان کے شمال مشرقی صوبہ تخارمیں 19 افراد کو سرعام کوڑے مارے گئے ہیں۔ یہ حکمران گروپ کی جانب سے فوجداری مقدمات پر شریعت (اسلامی قانون) کی سخت تشریح کو لاگو کرنے کی پہلی بڑی علامت ہے۔

سپریم کورٹ کے ترجمان مولوی عنایت اللہ نے بتایا کہ ’’مکمل غوروخوض اور سخت شرعی تحقیقات کے بعد ان میں سے ہرفردکو 39 کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی‘‘۔

ترجمان کے مطابق ان سزاؤں پرشمال مشرقی صوبہ تخار میں 11 نومبر کو صوبائی عدالتوں کے حکم پر نماز جمعہ کے بعدعمل درآمد کیا گیا تھا لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان افراد کو کن جرائم کی پاداش میں کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی تھی۔سخت گیرطالبان انتظامیہ کے تحت منظم جسمانی سزا کا یہ پہلا اشارہ تھا۔

طالبان نے دو دہائیوں کی شورش کے بعد اگست 2021 میں کابل میں اقتدارسنبھالا تھا لیکن ابھی تک کسی بھی غیر ملکی حکومت نے باضابطہ طور پران کی انتظامیہ کو تسلیم نہیں کیاہے۔مغربی ممالک طالبان پر انسانی حقوق کی پاسداری اور بچیّوں کے تعلیمی اداروں کو کھولنے کے مطالبات کررہے ہیں۔

یادرہے کہ 1996ء سے2001ء تک طالبان کے پہلے دورِحکومت میں مجرم قراردیے گئے افراد کو سرِعام کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے کے بہت سے واقعات پیش آئے تھے۔

ان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد اس طرح کی سزاؤں پرشاذ ونادرہی عمل درآمد کیا گیا ہے۔اس کے بعدمغرب کی حمایت یافتہ افغان حکومتوں کے ادوار میں افغانستان میں صرف سزائے موت قانونی رہی تھی اور اس پر عمل درآمد کیا جاتا رہا تھا لیکن کوڑے مارنے یا کسی کو سنگسار کرنے کے واقعات کی اطلاعات سامنے نہیں آئی تھیں۔

مقبول خبریں اہم خبریں