ویگنرکے سربراہ کیا صدرولادی میرپوتین کے ممکنہ جانشین اور ان کے لیے ناگزیر ہیں:تجزیہ
روسیوں نے یوکرین کے شہر بَخموت میں کئی ماہ کی خونریز لڑائی کے بعد جب سے اپنی فتح کا اعلان کیا ہے تو نیم فوجی ملیشیا ویگنر کے سربراہ یوفگینی پریگوژن کی شخصیت تیزی سے منظرعام پر نظر آنے لگی ہے۔ انھوں نے ہی سب سے پہلے شہر پر مکمل قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔اس جنگی کامیابی کو بعد میں صدر ولادی میرپوتن نے سراہا تھا۔ تہنیتی پیغامات کا یہ تبادلہ روسی سیاست کے پیچیدہ ہال میں سامنے آنے والے ایک بڑے، کثیرالجہت شطرنج کے کھیل کا حصہ ہے۔
بَخموت میں پریگوژن کااعلانِ فتح اس وقت ان کے لیے اہم ہے کیونکہ اس سے انھیں صدرولادی میرپوتین کے لیے اپنی افادیت کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ مرکزبرائے یورپی پالیسی اینالسز (سی ای پی اے) کے جمہوریت فیلو ایفان فومین نے العربیہ انگریزی کو بتایا کہ ’’ان (پریگوژن)کے لیے اب اپنے اثرورسوخ کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ حالیہ واقعات ان کے اثر و رسوخ میں نمایاں کمی کی نشان دہی کرتے ہیں‘‘۔
بھرتی کے مقاصد کے لیے روسی جیلوں میں ان کی رسائی کے خاتمے، روسی وزارتوں اور ایجنسیوں کے ساتھ ان کے رابطے میں کمی، اور وزارت دفاع کے ساتھ بڑھتی ہوئی مشکلات، جس سے ان کے آدمیوں کو گولہ بارود کی دستیابی محدود ہوکررہ گئی ہے،ان سب سے ان کے کم ہوتے ہوئے اثرورسوخ کا اظہار ہوتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ سرکاری چینلوں کے اندر پریگوژن کے اثرورسوخ میں واضح کمی نے انھیں عوامی دائرے میں اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ تاہم، عوامی چینلوں کا استعمال طاقت سے زیادہ کمزوری کا مظاہرہ ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی نمائش دراصل ان کے اثرورسوخ میں کمی کی نشان دہی کرتی ہے۔عوامی چینلز پران کا انحصار اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ غیر سرکاری چینلز اب ان کے لیے ناقابل رسائی ہیں۔
ویگنر کے سربراہ سوشل میڈیا کے ذریعے ماسکو کے اعلیٰ عہدے داروں، بیوروکریٹس اور روسی اشرافیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ روسی معاشرے کے بڑے حصے میں ایک مقبول عوامی شخصیت بن گئے اور ساتھ ہی انھیں بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت ملی۔
روس کے سرکاری عہدے داروں پرعوامی سطح پر تنقید کے باوجود، پریگوژن صدرولادی میرپوتین کے اقتدار کے ڈھانچے میں اہم ہیں کیونکہ انھوں نے وزارت دفاع میں توازن کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے۔روسی صدر کو اب بھی فوجی وسائل کے ساتھ ایک ایسی شخصیت رکھنے سے فائدہ ہوتا ہے جو ظاہری خود مختاری کے ساتھ کام کر سکے اور ضرورت پڑنے پر کریملن کے لیے قابل قبول وسائل مہیا کرے۔ فومین نے دلیل دی کہ ’’یہ ہر قسم کے سایہ دار کاروبار کے لیے پریگوژن کو ناگزیر بنادیتا ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’روسی اشرافیہ کے کچھ حصوں کے بارے میں پریگوژن کے ظاہری اور جارحانہ مؤقف سے یہ تاثر مل سکتا ہے کہ وہ صدر پوتین کے لیے کسی قسم کا خطرہ ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اصل میں ایسا ہے۔ان کا غیر معمولی کردار صدر پوتین کے نظام کی خرابی نہیں بلکہ ایک خصوصیت ہے۔ وہ نظام کا ایک خاص عنصر ہیں۔ایک ایسا شخص جسے ایسی باتیں کہنے اور کرنے کی اجازت ہے جو دوسرے نہیں کر سکتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد کیا ہوگا؟
ویگنر کے سربراہ نے کہا کہ وہ آرام اور دوبارہ تربیت کے لیے مہینے کے آخر تک اپنے آدمیوں کو میدان جنگ سے نکال لیں گے۔ تاہم اس بات کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ آیا یہ گروپ یوکرین کی جنگ میں اپناکردار جاری رکھے گا یا نہیں۔
اٹلانٹک کونسل میں سکیورٹی ریسرچ کے ریذیڈنٹ فیلو رسلان ٹریڈ نے العربیہ کو بتایا کہ ویگنر کے دستوں کی دوبارہ تعیناتی کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ وہ ممکنہ طور پر یوکرین میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں یا سوڈان میں نیم فوجی سریع الحرکت فورسز (آر ایس ایف) کے سربراہ جنرل حمدان دقلو المعروف حمیدتی کی مدد کے لیے براعظم افریقا میں واپس آسکتے ہیں۔
گذشتہ ماہ ویگنر نے سوڈان میں کام کرنے کی تردید کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کے درمیان حالیہ تشدد میں ملوث نہیں تھا۔تاہم ، یہ بتایا گیا ہے کہ ویگنر مشرقِ اوسط اور افریقا میں بھی کارروائیاں کررہے ہیں اوران کی وہاں بھی مختلف مصروفیات ہیں، جیسے شام ، وسطی افریقی جمہوریہ ، لیبیا اور سوڈان میں انھوں نے مبیّنہ طور پر رہنماؤں کی ذاتی محافظت سے لے کر فوجی تربیت اور فعال جنگی کرداروں تک خدمات مہیا کی ہیں۔
ٹریڈ نے دلیل دی کہ ویگنر کی بیرون ملک کارروائیاں یوکرین جنگ میں ان کی شرکت یا کمی پر منحصر نہیں ہیں۔ویگنر کے جنگجو ان علاقوں میں موجود ہیں جہاں روس کے مفادات ہیں۔کم سے کم اس لیے کہ کریملن کی پابندیوں سے بچنے کے لیے قیمتی وسائل کی سپلائی لائنیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ سوڈانی سونا ان وسائل میں سے ایک ہے ، اور جنرل حمیدتی کے ویگنر کے سربراہ کے ساتھ ذاتی اورکاروباری تعلقات ہیں۔تاہم اب تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ روسی سوڈان کی کسی نہ کسی قوت کے حق میں زمین پر سرگرم ہیں لیکن سفارتی طور پرانھوں نے سوڈانی فوج کے خلاف موقف اختیارکیا ہے۔
جہاں تک بَخموت کے واقعات کے بعد صدرپوتین کے ساتھ گروپ کے سربراہ کے کھڑے ہونے کا تعلق ہے، اثرورسوخ میں کمی کے باوجود پریگوژن کا کردار صدرپوتین کی محتاط سیاسی مشینری میں محفوظ معلوم ہوتا ہے۔
ٹریڈ واضح طور پر اس کا خلاصہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’آخر میں، پریگوژن صدرولادی میرپوتین کے سامنے وہ چیز لاتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں؛منافع، خوف اور علامتی فتوحات، جنھیں پروپیگنڈے میں استعمال کیا جاسکے‘‘۔