افغانستان وطالبان

افغان خواتین پر طالبان کی پابندیاں انسانیت کے خلاف جرم ہیں: انسانی حقوق گروپ

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

حقوق کے دو سرکردہ گروپوں نے جمعہ کے روز افغانستان میں طالبان کی طرف سے خواتین اور لڑکیوں پر عائد کی گئی سخت پابندیوں کو صنفی بنیادوں پر ظلم و ستم اور انسانیت کے خلاف جرم قرار دے دیا ہے۔

ایک نئی رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹ یا آئی سی جے نے بتایا کہ کس طرح طالبان کی جانب سے افغان خواتین کے حقوق کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا اور ساتھ ساتھ ان خواتین کو قید، جبری گمشدگی، تشدد اور دیگر ناروا سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ طالبان کے ان اقدامات کو بین الاقوامی قانون کے تحت صنفی ظلم و ستم کے حوالے سے عالمی فوجداری عدالت میں لایا جا سکتا ہے۔

Advertisement

ایمنسٹی اور آئی سی جے کی رپورٹ جس کا عنوان ہے "خواتین کے خلاف طالبان کی جنگ: افغانستان میں صنفی ظلم و ستم کا انسانیت کے خلاف جرم" ہے میں آئی سی سی کے قانون کا حوالہ دیا گیا۔۔ اس قانون میں صنف کی بنیاد پر ظلم و ستم کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔

طالبان نے اگست 2021 میں 20 برس بعد افغانستان میں اقتدار پر دوبارہ قبضہ کیا ہے۔ زیادہ اعتدال پسند حکمرانی کے ابتدائی وعدوں کے باوجود طالبان نے اپنے اقتدار پر قبضے کے فوراً بعد خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں لگانا شروع کر دی تھیں۔ خواتین کو عوامی مقامات اور زیادہ تر ملازمتوں سے روک دیا گیا۔ چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

سخت احکامات کے باعث پہلے سے ہی طالبان کے خلاف شدید تنقید کی جارہی تھی۔ طالبان کی انتظامیہ کو اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

رپورٹ میں آئی سی جے کے سیکرٹری جنرل سینٹیاگو اے کینٹن نے کہا کہ طالبان کے اقدامات اس قدر شدت پسندانہ اور ایسے منظم نوعیت کے ہیں کہ انہیں جنسی ظلم و ستم اور انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا جا سکتا ہے۔

دونوں تنظیموں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس جرم کو اپنی جاری تحقیقات میں شامل کرے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے اور اس حوالے سے قانونی کارروائی کی جائے۔ انہوں نے مختلف ممالک سے عالمی دائرہ اختیار استعمال کرنے اور طالبان کو بین الاقوامی قوانین کے تحت جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ بھی کیا۔

رپورٹ میں طالبان پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ وہ پرامن احتجاج میں حصہ لینے والی خواتین اور لڑکیوں کو حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کردیتے ہیں اور دوران حراست انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں دوبارہ احتجاج نہ کرنے کے لیے "اعترافات" یا "معاہدوں" پر دستخط کرنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔

ایمنسٹی کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ "خواتین کے خلاف جنگ" ہے جو "بین الاقوامی جرائم" کے مترادف ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ "جنسی جبر اور ظلم و ستم کے اس نظام کو ختم کرے۔"

ایمنسٹی نے طالبان کے ارکان کے ساتھ خواتین اور لڑکیوں کی زبردستی شادی کرنے اور ان کو زبردستی اس طرح کی شادیوں پر مجبور کرنے کی کوششوں کے کیسز کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جن افراد نے ایسی شادیوں سے انکار کیا وہ اغوا، دھمکیوں اور تشدد کا نشانہ بن گئے۔

رپورٹ میں اگست 2021 میں شمال مشرقی صوبے تخار میں ایک 15 سالہ لڑکی کے معاملے کا حوالہ دیا گیا جسے اس کے خاندان کے اعتراضات کے باوجود طالبان کی ایک شخصیت سے شادی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اسی طرح ایک 33 سالہ خاتون صحافی اور سماجی کارکن کے معاملے کا حوالہ دیا گیا جسے طالبان کے آنے کے ایک ماہ بعد ستمبر 2021 میں طالبان کمانڈر سے زبردستی شادی پر مجبور کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان نے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور نسلی اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

ایمنسٹی اور آئی سی جے نے رپورٹ کے نتائج کا خلاصہ کابل میں طالبان کی طرف سے مقرر کردہ وزارت خارجہ کے ساتھ بھی شیئر کیا اور اس کا جواب دینے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ فوری طور پر وزارت خارجہ نے رپورٹ کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں