عراق میں جمعے کو علی الصبح امریکی طیاروں کے ایک آپریشن میں ایرانی پاسداران انقلاب کی ذیلی تنظیم القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا الحشد الشعبی کے کئی رہ نماؤں اور ارکان کو نشانہ بنایا گیا۔ مذکورہ افراد کو میزائلوں کے ذریعے اس وقت حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ بغداد کے ہوائی اڈے کے جنوبی گیٹ سے باہر آ رہے تھے۔
موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ہلاک شدگان درج ذیل ہیں :
1. ابو مہدی المہندس (الحشد الشعبی ملیشیا کا نائب سربراہ).
2. قاسم سلیمانی (ایرانی القدس فورس کا سربراہ).
3. سامر عبداللہ (حزب اللہ کے سابق کمانڈر عماد مغنیہ کا داماد).
4. قاسم سلیمانی کا داماد.
5. محمد رضا الجابری (بغداد ہوائی اڈے پر الحشد الشعبی کا پروٹوکول مینجر).
6. حسن عبد الہادی (الحشد الشعبی).
7. محمد الشيبانی (الحشد الشعبی).
8. حيدر علی (الحشد الشعبی).
معلومات میں مزید بتایا گیا ہے کہ امریکی ڈرون طیاروں کی یہ کارروائی آدھی رات کے بعد کی گئی۔ اس سے قبل قاسم سلیمانی ایک شامی فضائی کمپنی (اجنحۃ الشام) کی پرواز سے جمعرات کی شب مقامی وقت کے مطابق 11 بجے دمشق سے بغداد پہنچا تھا۔ واضح رہے کہ الحشد الشعبی کا نائب سربراہ ابو مہدی المہندس سلیمانی کے ساتھ نہیں آیا بلکہ وہ سلیمانی کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر موجود تھا۔ تمام ہلاک شدگان کی لاشیں بغداد میں الکاظمیہ ہسپتال منتقل کر دی گئیں۔ ان افراد کی تدفین ہفتے کی صبح ہو گی جب کہ قاسم سلیمانی کی باقیات کو ایران بھیجا جائے گا۔
صور لعملية استهداف #قاسم_سليماني وأبو مهدي المهندس في #بغداد ولقطات لما بعد العملية https://t.co/MEnQX9zbci
— الحدث (@AlHadath) January 3, 2020
عراقی ملیشیا الحشد الشعبی کے ترجمان احمد الاسدی نے جمعے کی صبح ایک بیان میں بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب دو گاڑیوں پر بم باری کے نتیجے میں القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی اور الحشد الشعبی کے اہم رہ نما ابو مہدی المہندس کے مارے جانے کی تصدیق کی۔
الحشد الشعبی ملیشیا مسلح گروپوں کا ایک اتحاد ہے جن میں اکثر گروپ ایران کے حمایت یافتہ ہیں۔ الحشد ملیشیا سرکاری طور پر عراقی حکومتی فورسز میں ضم کی جا چکی ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی آپریشن کا آغاز جمعے کو علی الصبح ہوا اس وقت ہوا جب ایرانی پاسداران انقلاب کے بعض رہ نما الحشد الشعبی ملیشیا کے متعدد رہ نماؤں اور ارکان کے ساتھ بغداد کے ہوائی اڈے سے باہر نکل رہے تھے۔ اس دوران جنوبی مرکزی دروازے کی جانب موجود ان افراد کو امریکی طیاروں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔
بعد ازاں اس مقام کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں القدس فورس کا سربراہ قاسم سلیمانی، الحشد الشعبی ملیشیا میں دوسرا اہم ترین شخص ابو مہدی المہندس، ملیشیا میں تعلقات عامہ کا ذمے دار محمد رضا الجابری اور ملیشیا میں گاڑیوں کے امور کا ذمے دار حیدر علی وغیرہ شامل ہیں۔
اسی طرح متعدد کٹی پھٹی لاشیں ہیں جن کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی۔
دوسری جانب اس طرح کی نیم مصدقہ خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ حملے میں لبنانی حزب اللہ کا رہ نما محمد الکوثرانی اور حزب اللہ میں عراق کے امور کا ذمے دار بھی مارا گیا ہے۔
بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر یہ کارروائی ،،، بغداد میں امریکی سفارت خانے پر الحشد الشعبی ملیشیا کے حملے کے دو روز بعد سامنے آئی ہے۔
عراقی سرکاری ٹی وی نے جمعے کی صبح سب سے پہلے بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر الحشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس اور القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا اعلان کیا۔ ان دونوں افراد کی گاڑی کو بم باری کا نشانہ بنایا گیا۔
الحشد الشعبی ملیشیا نے جمعے کی صبح اعلان کیا کہ بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دو گاڑیوں کو راکٹوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملیشیا کے رہ نماؤں سمیت 5 ارکان اور 2 اہم مہمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
قاسم سلیمانی کون ہے ؟
قاسم سلیمانی 1957 میں ایران کے شہر قُم میں پیدا ہوا۔ اس کی پرورش کرمان صوبے کے ایک دور دراز گاؤں راپور میں ایک غریب کاشت کار کے گھرانے میں ہوئی۔ سلیمانی تعمیراتی کاموں میں مزدوری کیا کرتا تھا اور وہ انٹرمیڈیٹ سے آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکا۔ اس نے کرمان صوبے کے محکمہ آب میں بھی کام کیا۔ بعد ازاں وہ ایرانی پاسداران انقلاب میں بھرتی ہو گیا۔ سلیمانی نے پاسداران انقلاب میں کئی قائدانہ مناصب سنبھالے اور آخر کار اسے القدس فورس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ یہ فورس بیرون ملک ایرانی پاسداران انقلاب کی کارروائیوں کی ذمے دار ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں یہ القدس فورس پڑوسی ممالک بالخصوص شام اور عراق میں ایرانی مداخلت کی علامت بن گئی۔ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی جانب سے قاسم سلیمانی کو "زندہ شہید" قرار دیا جاتا رہا جب کہ سلیمانی خود کو "ولی فقیہ کا ایک جاں نثار سپاہی" کہا کرتا تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں کوثرانی بھی ؟
اس طرح کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ امریکی حملے میں لبنانی حزب اللہ کا رہ نما محمد الکوثرانی بھی مارا گیا ہے۔
ابو مہدی المہندس
برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ کی عربی ویب سائٹ کے مطابق ابو مہدی المہندس (انجینئر) کا اصلی نام جمال جعفر محمد علی آل ابراہم ہے۔ وہ 1954 میں عراق کے جنوبی شہر بصرہ میں پیدا ہوا۔ المہندس عراقی ملیشیا الحشد الشعبی کا نائب سربراہ تھا تاہم اسے وسیع پیمانے پر ملیشیا کا حقیقی سربراہ شمار کیا جاتا ہے۔ امریکا اسے بلیک لسٹ کر چکا ہے تھا۔
المہندس نے 1973 میں سول انجینئرنگ کے شعبے میں یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1977 میں BE کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں اسی شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کی۔
المہندس کا نام 1985 میں ایران کے دارالحکومت تہران میں عراقی فوج کے قیدیوں کی عقوبت اور ان پر تشدد کے مناظر کے حوالے سے عراقی عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ وہ 1985 میں عراق میں اسلامی سپریم کونسل (جماعت) کا رکن بنا۔ بعد ازاں کونسل کے پلیٹ فارم سے بطور سیاست دان کام کیا اور فیلق بدر تنظیم میں بطور عسکری ذمے دار اپنے فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں وہ فیلق بدر کا سربراہ بن گیا اور 1990 کی دہائی کے اواخر تک اسی منصب پر رہا۔
المہندس کویتی اور امریکی عدلیہ کے علاوہ بین الاقوامی پولیس کو بھی مطلوب تھا۔ اس پر 1980 کی دہائی میں امریکی اور فرانسیسی سفارت خانوں پر دھماکوں کا الزام تھا۔
الحشد الشعبی ملیشیا کی تشکیل کے بعد المہندس کو ملیشیا کے سربراہ کے نائب کے طور پر چن لیا گیا۔
عراقی "حزب الله"
امریکا کی جانب سے خاص طور پر عراقی "حزب الله" پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ گذشتہ جمعے کے روز شمالی عراق میں امریکی فوجی اڈے پر راکٹ حملے کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ اس حملے میں ایک امریکی دفاعی ٹھیکے دار ہلاک ہو گیا تھا۔
اتوار کی شب امریکی طیاروں نے عراقی حزب اللہ کے اڈوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں ایران نواز گروپ کے 25 جنگجو مارے گئے۔
ان حملوں نے عراق میں غم و غصے کو عروج پر پہنچا دیا اور ایران نواز مسلح گروپوں کے ہزاروں عراقی حامیوں نے منگل کے روز بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کر دیا۔
بعد ازاں بدھ کے روز مظاہرین گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے کے احاطے سے پیچھے ہٹ گئے۔ تاہم ان افراد کا دھاوا غیر معمولی نوعیت کا رہا۔ اس دوران سفارت خانے پر پتھراؤ ہوا، اس کی دیواروں پر عبارتیں لکھی گئیں اور اس کے اطراف آگ بھی بھڑکائی گئی۔