خطے میں ایران کی حکمت عملی تشکیل دینے والے ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت ،،، تہران کی بیرونی پالیسیوں میں ایک بڑا موڑ ہے۔ ایرانی رہبر اعلی علی خامنہ ای کے بعد ملک کی دوسری طاقت ور ترین شخصیت ہونے کے سبب وہ مشرق وسطی بالخصوص عراق، شام اور لبنان میں ایرانی نفوذ کے حوالے سے بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔ اس نے ایران میں مرکزی قیادت کے حزب اللہ ، شامی حکومت اور شیعہ عراقی گروپوں کے ساتھ روابط کو مضبوط تر بنایا۔
ایرانی رہبر اعلی نے میجر جنرل اسماعیل قآنی کو القدس فورس کا نیا سربراہ مقرر کر دیا۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے میں ایرانی منظرنامے سے سلیمانی کا غائب ہونا تہران کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
اگرچہ اسماعیل قآنی کا تقرر قاسم سلیمانی کی جگہ عمل میں آیا ہے تاہم قآنی کی نئی ذمے داریاں پاسداران انقلاب کی داخلی کارروائیوں تک محدود ہیں۔ وہ سلیمانی کے برعکس عراق، شام، لبنان اور یمن میں ایران نواز ملیشیاؤں کی نگرانی نہیں کریں گے۔
باخبر ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا ہے کہ ایرانی قیادت نے خطے میں اپنے عسکری دھڑوں کا معاملہ لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔
سلیمانی کا مشن مختلف ملکوں میں لڑائی کے محاذوں پر جانے کی متقاضی تھا۔ اگرچہ نصر اللہ آزادی سے نقل و حرکت نہیں کرتا ہے تاہم وہ خطے میں ایران نواز ملیشیاؤں میں سے بعض کی قیادت کے ساتھ ملاقات کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نصر اللہ کے ان میں سے بعض رہ نماؤں کے ساتھ اسماعلی قآنی سے زیادہ گہرے تعلقات ہیں۔
مذکورہ ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے لیے یہ نیا مشن خارج از امکان نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ سلیمانی کے ساتھ بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ (حزب اللہ کا گڑھ) میں اُس رابطہ دفتر کی نگرانی کر رہا تھا جہاں عراق، شام اور یمن میں ایران کے تابع مسلح گروپوں کے نمائندے موجود ہوتے ہیں۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ نصر اللہ نے گذشتہ دنوں کے دوران بیروت میں ایران کی حمایت کرنے والے زیادہ تر مسلح گروپوں کی سینئر قیادت سے ملاقات کی جن میں زیادہ تر عراقی ملیشیاؤں کے رہ نما تھے۔ ملاقات میں سلیمانی کی ہلاکت کے بعد آئندہ مرحلے کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے واسطے ایک نقشہ راہ وضع کرنے پر بات چیت ہوئی۔ ذرائع نے بتایا کہ حسن نصر اللہ نے عراقی ملیشیاؤں کے قائدین پر زور دیا کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو ایک جانب رکھ کر امریکی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں۔
نصر اللہ کا نیا مشن لبنان، شام ، عراق اور ایران کے درمیان آمد و رفت کا متقاضی ہو گا تا کہ سلیمانی کی طرح اقدامات میں رابطہ کاری پیدا کی جا سکے۔ تاہم القدس فورس کے سابق سربراہ کے انجام کے سبب نصر اللہ کے لیے حفاظتی اقدامات سخت کر دیے گئے ہیں۔
اس واسطے لبنان میں حزب اللہ کی مجلس عاملہ کے سربراہ ہاشم صفی الدین کا بھائی عبداللہ صفی الدین نصر اللہ کے ایرانی ملیشیاؤں کے ساتھ فیصلوں کو تہران میں ایرانی قیادت تک پہنچانے کا ذمے دار ہو گا۔
معلوم رہے کہ حزب اللہ کو مضبوط بنانے کے حوالے سے قاسم سلیمانی کا بڑا کردار رہا۔ اس کردار کا آغاز 90ء کی دہائی کے اواخر میں حزب اللہ کے عناصر کو اسلحہ اور تربیت فراہم کرنے کے ذریعے ہوا۔