ایران میں عقوبت خانوں میں ڈالے گئے شہریوں پر انسانیت سوز تشدد اور غیر انسانی سلوک فیشن کی طرح عام ہوچکا ہے۔ ایرانی جلاد قیدیوں سے اعتراف جرم کرانے کے لیے ان پر تشدد کے بدترین ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
ایرانی جیلوں میں قید رہنے والی ایک خاتون سماجی کارکن سبیدہ قلیان نے بتایا کہ حراست میں لی گئی لڑکیوں سے حجاب ترک کرنے کے بارے میں ان سے بدترین انداز میں پوچھ تاچھ کی جاتی ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا جرم تسلم کرلیں۔ جرم تسلیم نہ کرنے کی صورت میں انہیں قتل اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ 'ٹویٹر' پر پوسٹ ٹویٹس میں قلیان نے بتایا کہ ایرانی سیکیورٹی اداروں کے قریبی ذرائع ابلاغ نے ایک فوٹیج نشر کی جس میں خواتین سماجی کارکنوں یاسمین آریانی، منیرہ عرب شانی، صبا کرد افشاری، فرشتہ دیدنی، مژکان کشاورز، اور دیگر کو دکھایا گیا۔ وڈیو میں ان پر عاید کردہ الزامات کا اعتراف کراتے دکھایا گیا۔ ایرانی سیکیورٹی ادارروں کی طرف سے کہا گیا کہ وہ تسلیم کریں کہ ان کے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن مسیح علی نژاد کے ساتھ براہ راست روابط ہیں۔
قلیان کا مزید کہنا ہے کہ جیلوں میں قید خواتین سے اعتراف جرم کرانے کے لیے انتہائی سختی برتی جاتی ہے۔ پوچھے گئے سوالات کے جواب کے لیے انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ فورا جواب حاصل کرنےکی کوشش کی جاتی ہے۔
اس نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد اسے قرجک جیل میں منتقل کیا گیا۔ وہاں پر یاسمین آریانی، عرب شاہی ، کرد افشاری، دینی، اورکشاورز بھی قید تھیں۔ ان سے اعتراف جرم کرانے کے لیے تشدد کیا جاتا اور بری طرح انہیں مارا پیٹا جاتا۔
قلیان نے کہا کہ تشدد اور قتل کی دھمکیوں کے ذریعے ان خواتین سے اعتراف جرم کرایا گیا۔ ان سے کہاگیا کہ وہ اپنا بیان ریکاڈ کرائیں کہ ان کے مسیحی علی نژاد کے ساتھ رابطے ہیں اور وہ اس کی ہدایت پر کام کرتی ہیں۔ قلیان کا کہنا تھا کہ یہ محض جھوٹ تھا مگر خواتین سے زبردستی اس طرح کا بیان لیا جاتا۔
یاسمین آریانی، منیرہ عرب شاہی اور مژکان کشاورز کو گذشتہ برس مارچ میں خواتین کےعالمی دن کے موقع پران کی ایک فوٹیج سامنے آنے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ میٹرو بس میں بغیر حجاب کے سوار خواتین میں پھول تقسیم کر رہی تھیں۔
خیال رہے کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے یاسمین آریانی، عرب شاہی اور کشاورز کو فساد د فی الارض، جسم فروشی کے دھندے کو فروغ دینے اور قومی سلامتی کے خلاف لوگوں کو جمع کرنے کے سنگین الزامات عاید کیے گئے تھے۔
تہران کی ایک انقلاب عدالت نے ان خواتین سماجی کارکنوں کو مجموعی طور پر 55 سال قید کی سزا سنا رکھی ہے۔