آبرو ریزی کی دھمکی .. خواتین کو مظاہروں سے روکنے کے لیے ایرانی حکام کا اوچھا حربہ

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

فارسی زبان کی نیوز ویب سائٹ "ایران وائر" نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران گرفتار ہونے والی ایرانی خواتین کو تشدد اور اذیت رسانی کا نشانہ بنانے کے طریقوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاتون سے خصوصی بات چیت کی گئی جو حال ہی میں رہا ہوئی ہے۔ خاتون نے نفسیاتی اور جسمانی تشدد کے بھیانک طریقوں کا انکشاف کیا۔

رپورٹ میں مذکورہ خاتون کی شناخت کو چھپانے کے لیے اسے "رويا" کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ رویا جنوبی ایران کی ایک جیل میں قید رہی۔ اس دوران ایک سیکورٹی افسر نے رویا کو دھمکی دی کہ اگر اس نے حکام کی چاہت کے مطابق اعترافی بیان نہ دیا تو اسے داعش تنظیم کے ایک رکن کے حوالے کر دیا جائے گا جو رویا کو عصمت دری کا نشانہ بنائے گا۔ افسر کے مطابق یہ داعشی رکن ملحقہ کوٹھری میں موجود تھا۔

رویا نے بتایا کہ تحقیق کاروں کے ساتھ جیل کا سربراہ بھی شریک رہتا تھا۔ وہ رویا پر دباؤ ڈالتا، اس کو تحقیر و اہانت کا نشانہ بناتا، اس کے لیے گالیوں اور جنسی الفاظ کا بھی استعمال کرتا ... ان سب باتوں کا مقصد رویا کو جھکانا اور اس کے حوصلے کو توڑنا تھا تا کہ اس سے من مانے اعترافی بیانات حاصل کیے جا سکیں۔

رویا کے مطابق ایک تحقیق کار نے اسے تفتیشی کمرے میں لا کر کہا کہ "اب ہم ایک داعشی کو لے کر آئیں گے جس کی بیوی تمہارے ساتھ قید ہے۔ تم جانتی ہو کہ داعشی جنگجو کس طرح پیش آتے ہیں ، ہم تمہیں اس کے ساتھ کمرے میں تنہا چھوڑ دیں گے"۔ رویا نے بتایا کہ اس کے بعد تقریبا آدھے گھنٹے تک وہ داعشی کی آمد کے تصور سے کانپتی رہی۔ یہ بہت خوف ناک صورت حال تھی جس کا پوچھ گچھ کے دوران رویا کو سامنا کرنا پڑا۔

گرفتاری کے دوران رویا کو درپیش جنسی ہراسیت کی کہانی اُن درجنوں کہانیوں میں سے ایک ہے جو ایرانی جیل میں قید خواتین بیان کرتی ہیں۔ ان کہانیوں میں وہ حراست کے دوران خود پر ہونے والی جنسی دست درازیوں کے بارے میں بتاتی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران کی جیلوں میں خواتین کو منظم طور سے جنسی ہراسیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

رویا نے مزید بتایا کہ داعشی رکن کے ہاتھوں آبرو ریزی کی دھمکی کے علاوہ گرفتاری کے وقت سے ہی اسے شہر میں استغاثہ کے نمائندوں اور تحقیق کاروں "بہروز شاه محمدی" اور جسٹس "محمد مقيسی" کے ہاتھوں مسلسل تذلیل اور تحقیر کا نشانہ بننا پڑا ،،، صرف اس لیے کہ رویا نے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تھی۔ رویا کے مطابق مذکورہ افراد اس سے پوچھا کرتے تھے کہ "تم مظاہرے میں ان تمام مردوں کے ساتھ کیا کرتی تھیں ؟ کیا تمہارا شوہر نہیں ؟ تم جیسی عورتوں کے ساتھ سڑک پر جو کچھ بھی ہو کم ہے۔ پوچھ گچھ کے دوران مجھے ہر قسم کے جنسی اشاروں اور کنایوں کا سامنا کرنا پڑا"۔

ایران وائر ویب سائٹ نے اس سلسلے میں ایک اور خاتون "آزادہ" کی گواہی بھی پیش کی ہے۔ یہ ان خواتین میں شامل تھی جن کو 26 دسمبر 2019 کو کرج شہر کے قبرستان سے گرفتار کیا گیا۔ ازادہ نے بتایا کہ چار روز کی حراست کے دوران اسے کس طرح زبانی تشدد اور جنسی زیادتی کی دھمکی کا نشانہ بنایا یگا۔

ایرانی انٹیلی جنس کے اہل کاروں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے چند گھنٹے بعد آزادہ کو دیگر خواتین سمیت اخلاق عامہ کی پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ یہاں ایک افسر نے آزادہ کو چُھو کر اسے جنسی طور پر ہراساں کیا۔

آزادہ کے مطابق پولیس اہل کار نے پوچھ گچھ کے دوران اس کے موبائل فون میں جھانکتے ہوئے کہا کہ "کیا تمہارا کوئی شوہر نہیں ، اگر تمہارا شوہر ہوتا تو پھر تم اس طرح سڑک پر آوارہ گردی نہ کر رہی ہوتیں"۔ آزادہ نے بتایا کہ پریشان کرنے کا سلسلہ جنسی ہراسیت تک محدود نہ رہا بلکہ اسے اور دیگر خواتین کو جنہیں گرفتاری کا سابقہ کوئی تجربہ نہ تھا ،،، سب کو تحقیق کاروں کے ہاتھوں ذلت آمیز طریقے سے رعب اور دہشت کا نشانہ بنایا گیا۔

ایران کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی محققہ رہا بحرینی یہ انکشاف کر چکی ہیں کہ ایران کے ایک سیکورٹی افسر نے ایک گرفتار خاتون کو جنسی تعلق پر مجبور کیا اور اس کے جسم کے مختلف حصوں کو جنسی ہراسیت کا نشانہ بنایا۔

رہا بحرینی نے مذکورہ موضوع کے حوالے سے ایرانی نظام کے ذمے داران کی چشم پوشی پر کڑی تنقید کی۔ رہا کے مطابق جنسی تشدد اور ہراسیت کا شکار بہت سی خواتین اپنی شکایت درج نہیں کروا سکیں ،،، اس کی وجہ سیکورٹی اداروں کی فضا اور ایرانی نظام کی جانب سے انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں کے عناصر کو فراہم کی گئی مامونیت ہے۔

ایرانی حکام نے اعتراف کیا تھا کہ یوکرین کے مسافر طیارے کے گرائے جانے کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ آٹھ جنوری کو ایرانی پاسداران انقلاب کے دو میزائلوں کا نشانہ بن کر تباہ ہونے والے طیارے میں سوار تمام 176 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ایران میں مذکورہ جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کا کڑا احتساب کیا جائے اور پر امن احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والی خواتین کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

مقبول خبریں اہم خبریں