شام کے شمال مغرب میں بشار کی فوج نے مزید پیش قدمی کی ہے۔ انسانی حقوق کے نگراں گروپ المرصد نے اتوار کے روز بتایا ہے کہ شامی سرکاری فوج ادلب صوبے کے دوسرے بڑے شہر معرہ النعمان سے محض چند سو میٹر کی دوری پر ہے۔
ادلب صوبے میں تیس لاکھ افراد سکونت پذیر ہیں جن میں سے آدھے لوگ نقل مکانی کر کے آئے ہیں۔ گذشتہ برس یکم دسمبر سے شامی حکومتی فورسز اور اس کے حلیف روس کی جانب سے جنوبی ادلب اور مغربی حلب کے دیہی علاقوں میں عسکری جارحیت دیکھی جا رہی ہے۔ حلب شہر کو دارالحکومت دمشق سے جوڑنے والے بین الاقوامی ہائی وے کا کچھ حصہ اس علاقے سے گزرتا ہے۔
المرصد کے مطابق شامی حکومتی فورسز نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران معرہ النعمان شہر کے اطراف واقع 7 بڑے قصبوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران جنگ بندی کے متعدد سمجھوتوں کے باوجود دمشق حکومت کی جانب سے یہ بات دہرائی جاتی رہی ہے کہ وہ ادلب اور اس کے اطراف تمام علاقوں کو واپس لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ادلب صوبے کے بڑے حصے پر عسکریت پسند تنظیم تحرير الشام (سابقہ النصرہ فرنٹ) کا قبضہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اپوزیشن کے دیگر شامی گروپوں کا بھی نسبتا کم کنٹرول ہے۔
معرہ النعمان شہر کی سمت پیش قدمی کے ساتھ شامی حکومتی فورسز کو حلب شہر کے مغرب میں تحریر الشام اور دیگر گروپوں کی جانب سے شدید جھڑپوں کا سامنا ہے۔
مذکورہ دونوں محاذوں پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران فریقین کے درجنوں ارکان ہلاک ہو گئے۔ جھڑپوں میں شامی اور روسی فضائیہ کے طیاروں کی بم باری بھی شامل رہی۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی SANA نے ایک عسکری ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ ادلب اور مغربی حلب میں فوج کی کارروائیوں کا سلسلہ دہشت گرد عناصر کے خاتمے تک جاری رہے گا۔
اقوام متحدہ کے مطابق یکم دسمبر سے جاری عسکری جارحیت نے 3.5 لاکھ کے قریب افراد کو ادلب کے جنوب سے شمال میں زیادہ محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔ اس دوران معرہ النعمان شہر آبادی سے تقریبا خالی ہو چکا ہے۔
شام میں اپوزیشن جنگجو گروپوں نے 2015 میں پورے ادلب صوبے پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے بشار حکومت کی فوج نے روس کی معاونت سے صوبے میں فضائی بم باری اور شدید گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس دوران زمینی پیش قدمی بھی دیکھنے میں آتی رہی جس کا اختتام عموما روس اور ترکی کے زیر سرپرستی جنگ بندی کے سمجھوتوں پر ہوتا ہے۔