ایرانی پاسداران انقلاب کی سمندر پار آپریشنل عسکری کارروائیوں کی ذمہ دار تنظیم'فیلق القدس' کے سربراہ مقتول جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں ایک نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔ پاسداران انقلاب کے سابق چیف جنرل محمد علی جعفری نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل سلیمانی نہ صرف بیرون ملک عسکری کارروائیوں کی نگرانی کرتے تھے بلکہ وہ اندرون ملک حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو کچلنے میں بھی پیش پیش رہے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ جنرل محمد علی جعفری نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ 'ٹویٹر' پر پوسٹ کردہ ایک ٹویٹ میں لکھا کہ قاسم سلیمانی 1999 اور 2009 ء میں ملک میں ہونے والے طلباء اور اپوزیشن کے مظاہروں کو کچلنے میں پیش پیش رہے۔ انہوںنے ملک میں بدامنی کے خاتمے میں دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر فعال کردار ادا کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشکل اوقات میں ہم نے قاسم سلیمانی کو ثائراللہ اڈے پر دوسری ایرانی قیادت کے ساتھ دیکھا جو ملک کو شرپسندوں اور تخریب کاروں کی کارروائیوں سے بچانے میں اپنی ماہرانہ رائے دینے کے لیے موجود ہوتے تھے۔
خیال رہے کہ 'ثاراللہ ' نامی فوجی اڈہ ایران کے دارالحکومت تہران میں پاسداران انقلاب کا ایک بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس اڈے نے مظاہرین کے خلاف خونی کریک ڈائون میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
اگرچہ ایران میں قاسم سلیمانی ایران میں ایک قومی ہیرو کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر سوشل میڈیا پر ایسی کئی تصاویر اورفوٹیج موجود ہیں جن میں سلیمانی کے تصاویر پھاڑنے،نذرآتش کرنے اور لوگوںکی طرف سے انہیں دہشت گرد مجرم قرار دیتے دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔
17 جنوری کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جمعہ کے اجتماع سے خطاب میں کہا کہ سلیمانی قوم کا ہیرو ہے اور مٹھی بھر چند شرپسند ان کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایران میں مظاہرین کو کچلنے میں سلیمانی کے کردار سے قبل عراق اور شام میں ہونے والے پر امن مظاہروں میں طاقت کے استعمال کی خبریں آچکی ہیں۔
شامی حکومت کے ایک سینیر عہدیدار نے انکشاف کیا تھا کہ قاسم سلیمانی نے شام میں 2011ء کو اٹھنے والی عوامی احتجاج کی تحریک کودبانے کے لیے بشارالاسد کی فوج کی بھروپور مدد کی تھی۔