سوڈان کا نام دہشت گردی کے سرپرست ممالک کی فہرست میں باقی

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

سوڈان کا نام دہشت گردی کے سرپرست ممالک سے متعلق امریکی فہرست سے خارج کروانے کے لیے گذشتہ چند ماہ کے دوران بھرپور کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ ان ہی کوششوں کے ضمن میں سوڈانی حکومت کے سربراہ عبداللہ حمدوک کا واشگنٹن کا دورہ بھی شامل تھا۔

تاہم تنزانیا اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں میں زخمی ہونے والے افراد امریکی عدالت عظمی کے سامنے طویل قطار میں کھڑے ہیں۔ اس کے سبب سوڈان کی امیدوں پر پانی پھر سکتا ہے۔

مذکورہ صفوں میں کھڑے تنزانیا کے دارالحکومت دارالسلام میں امریکی سفارت خانے میں کام کرنے والے ایک شخص نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ وہ کس طرح دھماکے میں موت کے منہ میں جانے سے بچا۔ اس کے جائے حادثہ سے گزرنے کے چند لمحے بعد دھماکا ہوا جس کے سبب وہ معمولی طور پر زخمی ہوا۔

عدالت عظمی کے سامنے کھڑے ہجوم میں دونوں حملوں میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کے عزیز و اقارب بھی موجود ہیں۔ یہ لوگ اپنے پیاروں کے لیے ہرجانہ طلب کر رہے ہیں۔ بالخصوص سوڈان پر الزام ہے کہ وہ 90ء کی دہائی میں القاعدہ تنظیم کو سپورٹ فراہم کر رہا تھا۔ اس دوران تنظیم نے خرطوم حکومت کی سپورٹ سے دارالسلام اور نیروبی میں امریکی سفارت خانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا۔

اس سے قبل عدالتیں متاثرہ افراد کے لیے 4.3 ارب ڈالر تک کے زر تلافی کا فیصلہ دے چکی ہیں۔ تاہم متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کے ایک وکیل نے باور کرایا ہے کہ مذکورہ رقم صرف نقصان کا ہرجانہ ہے۔ عدالت عظمی میں دائر مقدمے میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ اتنی ہی رقم دہشت گردی کے لیے سپورٹ کی پاداش میں سوڈان پر بطور عقوبت لاگو کی جائے۔ اس طرح زر تلافی کی مجموعی رقم 8.6 ارب ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔

امریکی عدالت عظمی اس مقدمے کو آئینی نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ ہرجانے کا مطالبہ 2008 میں منظور کیے جانے والے قانون کے مطابق کیا جا رہا ہے جب کہ یہ حملے اس سے دس برس قبل 1998 میں ہوئے تھے۔ لہذا عدالت کو چاہیے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ آیا ان دونوں پہلوؤں میں مطابقت ہو سکتی ہے یا نہیں؟

امریکی ریاست کے وکیل کا کہنا ہے کہ مذکورہ قانون کو اس مقدمے پر لاگو کیا جانا ممکن ہے۔

اس وقت تمام فریقوں کو عدالت عظمی کے فیصلے کا انتظار ہے۔ یہ کارروائی موسم گرما کے اوائل میں اختتام پذیر ہو گی۔ اس کا مطلب ہوا کہ فیصلے میں کئی ماہ کی تاخیر ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو یہ کہہ چکے ہیں کہ سوڈان پر سے پابندیاں اٹھانے کا معاملہ صرف دارالسلام اور نیروبی میں دہشت گرد حملوں کے مقدمے سے متعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق دن میں امریکی جنگی جہاز یو ایس ایس کول پر دہشت گرد حملے کے سلسلے میں مماثل ہرجانے کی ادائیگی سے بھی ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ایک ذمے دار نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ "ہم سوڈان کے ساتھ سرگرمی سے بات چیت میں مصروف ہیں تا کہ پمارے درمیان سیاست سمیت تمام شعبوں میں خصوصی تعلقات ترقی پائیں۔ اسی طرح دہشت گردی کی سپورٹ کرنے والے ممالک کی فہرست سے سوڈان کا نام ہٹانے کے امکان پر بھی غور جاری ہے ... اس سلسلے میں امریکی کانگرس اپنا کردار ادا کر رہی ہے"۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے سوڈان پر عائد مالیاتی اور رقوم کی منتقلی سے متعلق پابندیاں 2017 سے اٹھا لی ہیں ... باقی ماندہ پابندیاں سات افراد پر عائد ہیں جن کا دارفور کے تنازع سے تعلق ہے۔ تاہم امریکی وزارت خارجہ کے ذمے دار کے مطابق دہشت گردی کا شکار افراد کے لیے ہرجانے کی ادائیگی امریکی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں