مصر کے سابق صدر حسنی مبارک چل بسے!

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

مصر کے سابق مطلق العنان صدر محمد حسنی السیّد مبارک انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی عمر92 سال تھی۔ان کے بیٹے علاء مبارک نے ٹویٹر پر منگل کے روز ان کے انتقال کی اطلاع دی ہے۔

حسنی مبارک 2011ء کے اوائل میں عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں معزولی کے بعد سے علیل تھے۔انھیں گذشتہ ہفتے کے روز ان کی طبیعت بگڑنے کے بعد قاہرہ کے ایک اسپتال کے انتہائی نہگداشت یونٹ میں داخل کیا گیا تھا۔

علاء مبارک نے سوموار کو اطلاع دی تھی کہ ان کے والد کی سرجری ہوئی ہےاور ان کی حالت بہتر ہے لیکن ایک روز بعد وہ دارِ فانی سے کوچ کرگئے ہیں۔انھوں نےدو بیٹے جمال اور علاء اور بیوہ سوزان مبارک کو سوگوار چھوڑا ہے۔

حسنی مبارک 1981ء میں مصر کے سابق صدر انورالسادات کے قتل کے بعد سیاسی منظرنامے میں سامنے آئے تھے اور انھوں نے 14 اکتوبر 1981ء کو صدر کی حیثیت سے ملک کا اقتدار سنبھالا تھا۔انھیں مغرب کا اتحادی سمجھا جاتا تھا اور انھوں نے مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کاوشیں کی تھیں۔

حسنی مبارک المنوفیہ گورنری میں واقع قصبے كفر المصيلحہ میں چار مئی 1928ء کو پیدا ہوئے تھے۔انھوں نے مصر کی فوجی اکیڈمی اور فضائیہ اکیڈمی میں تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔انھوں نے مصری فضائیہ میں 1952ء فلائٹ انسٹرکٹر کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں تک پہنچے تھے۔

انھیں 1968ء میں فضائیہ اکیڈمی کا کمانڈر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ دو سال تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔ 1972ء میں انھیں مصری فضائیہ کا کمانڈر انچیف اور نائب وزیر دفاع مقرر کیا گیا تھا۔وہ 1975ء تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔ تب صدر انور السادات نے انھیں ملک کا نائب صدر مقرر کردیا تھا۔ان کی زندگی میں ان پر چھے مرتبہ قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔

حسنی مبارک کوئی تین عشرے تک مصر کے سیاہ وسفید کے مالک رہے تھے اور اس دوران میں وہ چار مرتبہ ملک صدر منتخب ہوئے تھے۔ حسنی مبارک 2011ء کے اوائل میں مصر میں عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

انھیں معزولی کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور اگست 2013ء میں انھیں قاہرہ کے نواح میں واقع تورا جیل سے رہا کردیا گیا تھا لیکن پھر گھر پر نظربند کردیا گیا۔ اس دوران میں انھیں طبیعت بگڑنے کے بعد قاہرہ میں واقع معدی فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

ان کے خلاف شروع ہونے والی عرب بہاریہ تحریک کی لہریں مشرقِ اوسط اور شمالی افریقا میں واقع دوسرے عرب ممالک میں بھی پھیل گئی تھیں اور ان کے مطلق العنان صدور زین العابدین بن علی (تُونس)، معمر قذافی (لیبیا) ،علی عبداللہ صالح (یمن) اور چند سال کے بعد عبدالعزیز بوتفلیقہ (الجزائر) کو اپنے اپنے ملکوں میں احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا۔

حسنی مبارک کے خلاف ان کی معزولی کے بعد بدعنوانیوں اور مظاہرین کی ہلاکتوں سمیت مختلف الزامات میں مقدمات چلائے گئے تھے۔انھیں عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن بعد میں ان کی سزا میں کمی کردی گئی تھی اور مارچ 2017ء میں انھیں جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔

ان کے دونوں بیٹوں علاء اور جمال کو بھی بدعنوانیوں کے مختلف مقدمات میں ماخوذ کیا گیا تھا اور انھیں ان میں مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔تاہم وہ بھی اب اپنی اپنی قید بھگتنے کے بعد جیل سے رہا ہوچکے ہیں۔

مصر کے سابق مطلق العنان صدر کی 78 سالہ اہلیہ سوزان مبارک بھی علیل بتائی جاتی ہیں اور وہ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔واضح رہے کہ حسنی مبارک کے 30 سالہ دورِ حکمرانی میں ان کی اہلیہ سوزان سیاسی طور پر بڑی بااثر خاتون رہی تھیں ۔انھوں نے ملک میں مختلف منصوبے شروع کرائے تھے۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مصری خواتین کے ختنے کی رسم کو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

مقبول خبریں اہم خبریں