امریکا "عراقی حزب اللہ بریگیڈز" کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے: نیویارک ٹائمز
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی وزارت دفاع (پینٹاگان) نے عسکری قیادت کو حکم دیا ہے کہ وہ عراق میں امریکی معرکہ آرائی کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کرے۔ اس سلسلے میں گذشتہ ہفتے ہدایت جاری کی گئی کہ ایران نواز ملیشیاؤں کے مجموعے کو تباہ کرنے کے لیے ایک مہم کی تیاری کی جائے۔ ان ملیشیاؤں نے عراق میں امریکی افواج کے خلاف مزید حملوں کی دھمکی دے رکھی ہے۔ یہ پیش رفت بغداد میں امریکی مفادات پر حملوں کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد سامنے آئی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر روبرٹ اوبرائن سمیت بعض سینئر عہدے داران ایران اور اس کی فورسز کے خلاف نئے سخت اقدامات کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق ان شخصیات کا کہنا ہے کہ عراق میں ایران نواز ملیشیاؤں کو ختم کر ڈالنے کا موقع ہے کیوں کہ کرونا کی وبا کے سبب ایرانی قیادت انتشار کا شکار ہے۔
امریکی ذمے داران کے مطابق وزیر دفاع مارک ایسپر نے عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کے باوجود وہاں نئی مہم جوئی کی منصوبہ بندی کی اجازت دے دی ہے۔ دو امریکی عہدے داران نے نیویارک ٹائمز کو باور کرایا کہ اس کا مقصد ایران نواز ملیشیاؤں کی جانب سے امریکی افواج کے خلاف حملوں میں اضافے کی صورت میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو زیادہ آپشنز فراہم کرنا ہے۔
ایران اس وقت عراقی حکومت میں اپنے سیاسی نفوذ پر عمل درامد کے لیے عراقی ملیشیاؤں کو اپنا ایجنٹ بنا کر امریکی افواج کے خلاف برسرجنگ ہے۔ لبنانی حزب اللہ کی طرح عراقی حزب اللہ بریگیڈز بھی سیاسی اور عسکری دھڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کے عراقی سیاست دانوں کے علاوہ عراقی کمپنیوں اور فلاحی تنظیموں کے ساتھ روابط ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور چیف آف اسٹاف جنرل مارک میلی سمیت کئی سینئر عہدے داران عراقی سیکورٹی فورسز پر زور دے چکے ہیں کہ وہ امریکی فوج کے خلاف حملے کرنے والی شیعہ ملیشیاؤں کے خلاف سخت اقدامات کرے۔ بصورت دیگر امریکا خود جوابی کارروائی پر مجبور ہو جائے گا۔
متعدد باخبر امریکی ذمے داران نے نیویارک ٹائمز اخبار کو بتایا کہ پینٹاگان کی ہدایات میں عراق میں امریکی فوج کی مرکزی کمان کے اندر منصوبہ بندی کرنے والوں کو احکامات دیے گئے ہیں کہ وہ مذکورہ ملیشیاؤں کے خاتمے کے لیے حکمت عملی وضع کریں۔ ہدایات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عراقی حزب اللہ بریگیڈز کے جنگجوؤں کے ساتھ موجودگی کی صورت میں ایرانی نیم فوجی دستے بھی قانونی ہدف ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ رواں ماہ عراقی حزب اللہ بریگیڈز کی جانب سے ایک عراقی فوجی اڈے پر راکٹ حملوں میں دو امریکی اور ایک برطانوی فوجی مارا گیا تھا۔ اس کے اگلے روز امریکی لڑاکا طیاروں نے جوابی انتقامی کارروائی کی۔
حالیہ ہفتوں کے دوران مائیک پومپیو اور دیگر امریکی سینئر اہل کاروں نے نہ صرف حزب اللہ بریگیڈز بلکہ ایرانی عسکری فورسز کے خلاف بھی فوجی آپریشن کے خیال کا دفاع کیا۔
تاہم 12 مارچ کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کے دوران وزیر دفاع مارک ایسپر اور چیف آف اسٹاف جنرل مارک میلی نے اس حوالے سے دباؤ ڈالا کہ راکٹ حملوں پر زیادہ محدود سطح پر جوابی کارروائی کی جائے۔ صدر ٹرمپ نے اس موقف کی تائید کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ عراق میں حزب اللہ بریگیڈز کے زیر استعمال ہتھیاروں کے پانچ گوداموں پر رات کے وقت فضائی حملے کیے جائیں۔
البتہ کئی امریکی عہدے داران کے نزدیک امریکی فورسز کے خلاف حملوں میں اضافے کی دھمکی دینے والی عراقی حزب اللہ بریگیڈز اور دیگر ملیشیاؤں کو نشانہ بنانے کے آپشنز کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ضرورت انتہائی حد تک بڑھ گئی ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق غالبا عراقی حزب اللہ بریگیڈز کے خلاف پینٹاگان کی مہم میں براہ راست ہدف ملیشیا کی قیادت، اس کے مراکز اور ہتھیاروں کے گودام ہوں گے۔ ان کے علاوہ ملیشیا کے پاس موجود میزائلوں کا وسیع ذخیرہ بھی نشانے پر ہو گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ملیشیا کم فاصلے والے بیلسٹک میزائلوں کے اُس خفیہ اسلحے خانے تک رسائی کی قدرت رکھتی ہے جو گذشتہ چند ماہ کے دران ایران نے عراق کے حوالے کیے۔ یہ بات امریکی انٹیلی جنس اور فوج کے ذمے داران نے بتائی۔
اخبار کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ امریکا کی وسیع تر عسکری مہم میں عراق اور شام میں وسیع پیمانے پر ملیشیا کے اہداف کو نشانہ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ عراق میں عراقی حزب اللہ بریگیڈز کی اتحادی دیگر شیعہ ملیشیاؤں کو بھی حملوں کی لپیٹ میں لیا جا سکتا ہے۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے بدھ کے روز توقع ظاہر کی کہ امریکا عراق میں ملیشیاؤں کی جانب سے راکٹ حملوں کا جواب دے گا۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات پیش نہیں کیں۔ ایک اخباری انٹرویو میں ایسپر کا کہنا تھا کہ "آپ امریکی فوجیوں کو ہلاک یا زخمی کر کے بھاگ نہیں سکتے .. ہم اپنے طور سے منتخب کردہ وقت، جگہ اور طریقے سے جواب دیں گے۔ ہم ان کا کڑا احتساب کریں گے"۔