تیونس میں کرونا کے متعدد مریضوں کے شفایاب ہونے کے بعد ملک میں پھیلی اس وباء کا شکار ہونے والے دوسرے مریضوں کو زندگی کی ایک نئی امید فراہم کی ہے۔ دوسرے مریض بھی یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ جلد ہی اس بیماری کے خلاف جاری جنگ میں کامیاب ہوں گے۔
تیونس کی قفصہ گورنری کے 41 سالہ محمد بھی کرونا کا شکار ہونے والوں میں شامل تھے۔ وہ پہلے تیونسی شہری ہیں جن میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔ تاہم وہ اس بیماری سے نکل آئے ہیں۔ شفایاب ہونے والے بعض دوسرے مریضوں بھی العربیہ ڈاٹ نیٹ سے اپنے تجربات شیئر کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیماری لاحق ہونے کے بعد وہ مختلف مراحل سے گذرے جن میں ایک مرحلہ بیماری کی تشخیص اور علاج کا ہے۔
محمد بتایا کہ وہ اٹلی میں ملازمت کرتا تھا۔ وہاں پر کرونا کی وبا پھوٹنے کے بعد اس نے تیونس کی راہ اختیار کی۔ وطن واپسی کے بعد اس میں کرونا کی وباٰ کی تشخیص ہوئی۔ اس نے بتایا کہ میں فروری کے آخر میں واطن واپس آیا مگر اس وقت اسے کرونا جیسی بیماری کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی۔ اس کے آبائی شہر قفصہ میں بھی کوئی اور کیس نہیں تھا۔ میں نے رضاکارانہ طورپر گھرچھوڑ کر قرنطینہ میں خود کو الگ تھلگ کرلیا۔
قرنطینہ منتقل ہونے کے دو روز بعد مجھے ہلکا بخار شروع ہوگیا۔ مجھے یہ شبہ ہوا کہ یہ بخار کرونا کا ہوسکتا ہے۔ میرا طبی معائنہ کیا گیا اور ٹیسٹ لیا تو وہ مثبت آیا۔ اس کے بعد مجھے سوسہ ریاست کے فرحات حشاد اسپتال منتقل کردیا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسپتال میں قیام کافی مشکل رہا۔ میں اپنے اہل خانہ کے بارے میں بہت فکر مند تھا کہ کہیں انہیں یہ بیماری نہ لاحق ہو۔
تاہم میں نے صبر اور ہمت کا دامن پکڑے رکھا۔ دو ہفتے بعد آخر کار میں اس بیماری سے نکل آیا۔دو ہفتے بعد اب میرے جسم میں کرونا وائرس کی کوئی علامت موجود نہیں۔
محمد نے کرونا کا شکار ہونے والے دوسرے افراد پرزور دیا کہ وہ خوف زدہ نہ ہوں بلکہ امید کا دامن تھامے رکھیں۔ اس مشکل مرحلے میں امید ہی بیماری کے خلاف لڑںے کا بہترین ہتھیار ہے۔