ایسے وقت میں جب ایران کرونا وائرس کے بحران کا مقابلہ کرنے میں قاصر رہنے کے بعد امریکی پابندیاں اٹھائے جانے کا مطالبہ کر رہا ہے ،،، دوسری جانب واشنگٹن حکومت تہران کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کے درپے ہے۔ اس دوران ایرانی نظام کی جانب سے خطے میں فرضی کمپنیوں اور دھوکا دہی کے راستوں کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ جال کئی برس پہلے بچھایا گیا۔
امریکی وزارت خزانہ نے گذشتہ چند روز کے دوران 20 عراقی اور ایرانی اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ ادارے ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کو سپورٹ پیش کرنے کے علاوہ ایران کی ہمنوا عراقی ملیشیاؤں کے لیے امداد بھی منتقل کر رہے تھے۔ ان ملیشیاؤں میں عراقی حزب اللہ اور عصائب اہل الحق جیسی تنظیمیں شامل ہیں۔
یہ ادارے اور افراد مختلف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ان میں عراق کی ام قصر بندرگاہ کے ذریعے اسمگلنگ، عراقی ناموں کی حامل کمپنیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ، شام کی حکومت کو ایرانی تیل کی فروخت اور عراق اور یمن کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ شامل ہے۔ تہران حکومت نے عراق میں ایک دینی ادارے کو پیش کی گئی مالی رقوم اور عطیات بھی اس بہانے ہتھیا لیے کہ انہیں عراق میں شیعہ شخصیات کے مزاروں کی دیکھ بھال پر خرچ کیا جائے گا۔
عراق میں اس ادارے کا نام "مزارات مقدسہ کی تعمیر نو سے متعلق کمیٹی" (العتبات) ہے۔ اس پر ایرانی پاسداران انقلاب کا کنٹرول ہے اور اس کی نگرانی براہ راست ایرانی رہبر اعلی علی خامنہ کے پاس ہے۔ سال 2003 سے یہ کمیٹی عراق کے مختلف شہروں میں سرگرم ہے۔ ان میں نجف، کربلا، کاظمین اور سامراء شامل ہیں جہاں شیعوں کے مقدس مزارات واقع ہیں۔
چوں کہ العتبات کا ادارہ خامہ ای کے زیر انتظام اداروں میں سے ہے۔ اس لیے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی نے اپنی ہلاکت سے قبل العتبات کے سربراہ کے طور پر "محمد جلال مآب" کے انتخاب اور تقرر میں معاونت فراہم کی۔ جلال کو "حسن پُلارک" کی جگہ یہ ذمے داری سونپی گئی۔ وہ ایرانی پاسداران انقلاب کا ایک افسر ہے۔ جہاں تک پلارک کا تعلق ہے تو اس پر الزام ہے کہ اس نے میزائل، دھماکا خیز آلات اور مواد اور چھوٹے ہتھیاروں کو یمن منتقل کرنے کے سلسلے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ذمے داران کے ساتھ رابطہ کاری انجام دی۔
مزید برآں العتبات نے کروڑوں ڈالر کی رقم "بہجت الكوثر کنسٹرکشن اینڈ ٹریڈ لمیٹڈ" کے نام سے ایک کمپنی کو منتقل کی۔ اس کمپنی کا صدر دفتر عراق میں ہے اور یہ کوثر کمپنی کے نام سے بھی معروف ہے۔ مذکورہ کمپنی عراق میں ایرانی انٹیلی جنس کی سرگرمیوں کے اڈے کی حیثیت رکھتی تھی۔ ان سرگرمیوں میں ایران نواز دہشت گرد عراقی ملیشیاؤں کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی کھیپ فراہم کرنا شامل ہے۔
اس کے علاوہ کوثر کمپنی کو ایران کے مرکزی بینک کی جانب سے منتقل کیے گئے کروڑوں ڈالر بھی موصول ہوئے۔ ستمبر 2019 میں کمپنی کا اندراج زیرِ پابندی آنے والے اداروں کی فہرست میں کر لیا گیا۔ اس پر القدس فورس اور لبنانی حزب اللہ کو مالی سپورٹ پیش کرنے کا الزام تھا۔ بلیک لسٹ ہونے والی کوثر کمپنی ایرانی پاسداران انقلاب کے افسران اور ذمے داران کے زیر کنٹرول تھی۔
ان افسران میں حسن پلارک، علی رضا واداکار، محمد الغریفی اور مسعود شوشتری پوستی، حسن نژاد اور سید رضا موسوی شامل ہیں۔
ایران نے خود پر پابندیاں عائد ہونے کے بعد اپنے تیل کی اسمگلنگ کے لیے عراقی بندرگاہوں کا استعمال کیا۔ ان میں جنوبی شہر بصرہ میں ام قصر کی بندرگاہ نمایاں ترین ہے۔ امریکی وزارت خزانہ نے اس سارے معاملے کا جائزہ لینے کے بعد جہاز رانی کی کمپنی "الخمائل" پر پابندی عائد کر دی۔ اس کمپنی کا صدر دفتر عراق میں ہے اور وہ ام قصر کی بندرگاہ سے باہر کام کرتی ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے ام قصر بندرگاہ پر شیعہ سیاسی جماعتوں کے کنٹرول کا فائدہ اٹھایا تا کہ وہ بندرگاہ پر عراقی حکومت کے تفقیشی پروٹوکول سے بچ سکے۔ اس دوران بندرگاہ پر کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں اور لنگر انداز غیر ملکی جہازوں پر بھاری ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ اسی طرح الخمائل کمپنی نے امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کی پٹرولیم مصنوعات کو فروخت کیا۔