ایرانی پارلیمنٹ میں عدلیہ کے امور سے متعلق کمیٹی کے رکن اور مذہبی شخصیت حسن نوروزی نے ایرانی فورسز کی جانب سے یوکرین کا مسافر طیارہ مار گرانے کی کارروائی کو ایک "درست عمل" قرار دیا ہے۔ رکن پارلیمنٹ نے یہ بات فارسی زبان کے ایرانی اخبار "ہمدلی" کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہی۔ مزید برآں ایرانی وزیر خارجہ کے دعوؤں کے برخلاف نوروزی نے تصدیق کی ہے کہ مذکورہ طیارہ گرانے کے الزام میں ایران کے کسی فوجی اہل کار کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
ایرانی پاسداران انقلاب نے رواں سال 8 جنوری کو دو میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنا کر یوکرین کا ایک مسافر طیارہ مار گرایا تھا۔ یہ طیارہ تہران سے کیوو کے راستے کینیڈا جا رہا تھا۔ حادثے میں طیارے میں عملے کے ارکان اور مسافروں سمیت تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حسن نوروزی کا تعلق ایرانی رہبر اعلی علی خامنہ ای کے ہمنوا سخت گیر بنیاد پرست گروپ سے ہے۔ نوروزی کے مطابق "یوکرین کا طیارہ مار گرائے جانے کی بنیاد پر کسی فوجی اہل کار کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ غیر ملکی قوتیں طیارے کو کنٹرول کر رہی تھیں۔ ممکنہ طور پر یہ امریکا یا اسرائیل ہو سکتا ہے۔ ہمارے فوجیوں کا تصرف بالکل درست تھا"۔
یاد رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اس سے قبل یہ اعلان کر چکے ہیں کہ یوکرین کا مسافر طیارہ مار گرانے والے ایرانی فوجی اہل کار کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے تصدیق کی تھی کہ مذکورہ شخص اس وقت جیل میں پڑا ہوا ہے۔ اسی طرح ایرانی عدلیہ کے ترجمان غلام حسین اسماعیلی نے بتایا تھا کہ اس سلسلے میں وسیع پیمانے پر تحقیقات کے بعد بعض افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔
ایرانی رکن پارلیمنٹ حسن نوروزی نے بنا کسی دلیل اور شواہد کے یہ کہا ہے کہ "مذکورہ طیارہ گرائے جانے سے ایک ہفتہ قبل یہ طیارہ اسرائیل میں تھا جہاں اس میں تبدیلیاں کی گئیں"۔ تاہم نوروزی نے ان تبدیلیوں کی نوعیت اور ان معلومات کے ذریعے کا تعین نہیں کیا۔
نوروزی کے مطابق طیارے کو مغرب کی جانب جانا تھا مگر اس نے شمال کی جانب اپنا روٹ تبدیل کر لیا۔ یہ طیارہ 32 ہزار فٹ کے بجائے 8 ہزار فٹ کی بلندی پر محوِ پرواز تھا کیوں کہ وہ غیر ملکی کنٹرول میں تھا۔ ایرانی رکن پارلیمنٹ نے مزید کہا کہ فوجی اہل کاروں نے اپنا فرض پورا کیا لہذا کسی قسم کا احتساب یا گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
یاد رہے کہ یوکرین کے مسافر طیارے کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں ایران کے 82، کینیڈا کے 63 اور یوکرین کے 11 شہری تھے۔ ان کے علاوہ دیگر افراد کا تعلق افغانستان، سویڈن، برطانیہ اور جرمنی سے تھا۔
رواں سال جنوری میں مسافر طیارہ مار گرائے جانے اور اس کے تمام مسافروں کی ہلاکت کے خلاف ایران کے متعدد شہروں میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
یوکرین کے طیارے کا بلیک بکس ابھی تک ایران کے پاس ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے 15 فروری کو کہا تھا کہ ایران مذکورہ طیارے کے بلیک بکس کی ڈی کوڈنگ نہیں کر سکتا تاہم وہ اس بلیک بکس کو کسی بھی دوسرے ملک کے حوالے ہر گز نہیں کرے گا۔