حال ہی میں ایک فلسطینی نوجوان عامر نجی کو اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد جب غربِ اردن میں واقع شہر رام اللہ میں لایا گیا تو اس سے یہ کہا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے ارکان سے معانقہ نہیں کرے مگر وہ اپنی ماں کو دیکھ کراپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا،محبت کے جذبات اُمڈ پڑے اور وہ ان سے والہانہ لپٹ گیا۔
لیکن چند ہی ثانیے کے بعد اس اٹھارہ سالہ نوجوان کے والد نے اس کو پیچھے ہٹا دیا۔اس نے تب چہرے پر حفاظتی ماسک ، پلاسٹک سوٹ اور دستانے پہن رکھے تھے۔
پھر نجی نے اپنے استقبال کے لیے آنے والے خاندان کے دوسرے ارکان سے ہاتھ ہلا کر ہی علیک سلیک پر اکتفا کی اور اس کو ایک ہوٹل لے جایا گیا جہاں اس کو اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے دوسرے قیدیوں کے ساتھ دو ہفتے تک قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔
خطرے سے دوچار قیدی
اسرائیل کے الٹر آرتھو ڈکس وزیر صحت کو کرونا وائرس کے بحران سے نمٹنے میں ناکامی پر کڑی تنقید کا سامنا رہا ہے اور وہ گذشتہ روز ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔
اسرائیل نے کرونا وائرس کی وَبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جیلوں میں احتیاطی تدابیراختیار کی ہیں،وہاں جراثیم کش اسپرے کا باقاعدگی سے چھڑکاؤ کیا جارہا ہے،صفائی ،ستھرائی کا خیال رکھا جارہا ہے۔جیل کے عملہ کا درجہ حرارت روزانہ کی بنیاد پر چیک کیا جارہا ہے،قیدیوں کی ان کے خاندانوں اور وکلاء سے ملاقاتوں پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان اور وکلاء صہیونی ریاست سے جیلوں میں کرونا کے خطرے سے دوچار قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔اسرائیلی جیلوں میں اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ فلسطینی قید ہیں۔اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اب تک کرونا وائرس کا شکار نہیں ہوا ہے۔
جبکہ فلسطینی ان کے دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ رہا کیے گئے ایک قیدی کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔انھوں نے وزارت انصاف سے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی (آئی سی آر سی) نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ جن قیدیوں کی عمر 65 سال سے زیادہ ہے یا جو پہلے ہی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں،انھیں جیلوں سے رہا کردیا جائے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں آئی سی آر سی کے مشن کے سربراہ ڈیوڈ قوسن کا کہنا ہے کہ ’’ ان اقدامات سے جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوگی اور پہلے سے کم زور مدافعتی نظام کے حامل قیدیوں کے کرونا وائرس کا شکار ہونے کے امکانات بھی کم ہوجائیں گے۔‘‘
انھوں نے کہا:’’ ہم یہ چاہتے ہیں، جہاں تک ممکن ہو،ان قیدیوں کو رہا کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر خطرات کو کم کیا جائے۔‘‘
جب درد سِوا ہو گیا
اسرائیل میں سوموار تک کرونا وائرس کے قریباً 15 ہزار کیسوں کی تصدیق کی گئی ہے اور فلسطینی علاقوں میں اس وَبا کا شکار ہونے والوں کی تعداد 350 ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں ٹیسٹوں کی شرح بہت کم ہے۔
فلسطینی اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اسرائیل سے غربِ اردن میں لوٹنے والے اپنے ساتھ کرونا کی وَبا کو بھی لا سکتے ہیں۔ان میں صہیونی ریاست میں کام کرنے والے ہزاروں فلسطینی اور جیلوں سے رہائی پانے والے فلسطینی، دونوں شامل ہیں۔
اسرائیلی جیل سے رہائی پانے والے عامر نجی مذکور کو ایک سال قبل احتجاجی مظاہرے کے دوران میں قابض فوجیوں کی جانب پتھراؤ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس کو اب کرونا وائرس کی وجہ سے رہا نہیں کیا گیا بلکہ اس کی رہائی اس کی قید کی مدت پوری ہونے کے بعد عمل میں آئی ہے۔
وہ بتاتے ہیں؛''جیلوں میں یہ حقیقی خدشہ پایاجارہا ہے کہ کرونا وائرس پھیل سکتا ہے۔اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی زندگی بہت کٹھن ہے لیکن کرونا وائرس پھیلنے کے بعد سے تو ان کی مشکلات دوچند ہوچکی ہیں۔''وہ امریکا اور فلسطین دونوں کی شہریت کے حامل ہیں۔
رام اللہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم فلسطینی قیدی کلب نے بتایا ہے کہ اسرائیل میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد سے بیسیوں قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے۔عامر نجی کی طرح جیلوں سے رہائی کے بعد ان سب کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور پھر انھیں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔
اس این جی او کی عہدہ دار عمانی سارہنح نے بتایا ہے کہ اسرائیلی حکام نے ایک قیدی کو صرف چار دن تک زیر حراست رکھنے کے بعد چھوڑ دیا تھا مگر بعد میں اس کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے اس دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس شخص کو جب جیل سے رہا کیا گیا تھا تو تب وہ صحت مند تھا۔
اسرائیل کی جیل سروس نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ اس نے گذشتہ مہینوں کے دوران میں کرونا وائرس کو اپنی جیلوں میں داخل ہونے اور پھیلنے سے روکنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے ہیں۔‘‘
اس کا کہناہے کہ ’’ہر قیدی کو چہرے کے دو کثیر استعمال ماسک دیے جاتے ہیں اور نئے آنے والے قیدیوں کو چودہ روز تک الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔‘‘اس نے قیدیوں کی حالتِ زار سے متعلق فلسطینی میڈیا اور دوسرے ذرائع سے منظرعام پر آنے والی خبروں کو غلط قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔