حوثیوں کی حراست میں رہنے والی خاتون قیدی کا باغیوں کی جیلوں میں بدترین سلوک کا انکشاف
یمن میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سمیرہ عبداللہ الحوری نے ملک میں حوثیوں کی جیلوں اور قید خانوں کے اندر ہونے والی خلاف ورزیوں اور پامالیوں کی تفصیلات کا انکشاف کیا ہے۔
سمیرہ ان دنوں مصری دارالحکومت قاہرہ میں مقیم ہے۔ اس نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حوثی باغیوں کی قید میں رہنے کے دوران اپنے الم ناک تجربات بیان کیے۔
سمیرہ کے مطابق قید کے دوران اسے ہر طرح کے جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر جاسوسی ، حامیوں کی بھرتی اور اتحادی فورسز کا مورال بلند کرنے سے متعلق الزامات عائد کیے گئے۔ یہاں تک کہ اس نے قید سے باہر آنے کے لیے ان الزامات کے حوالے سے اعترافی بیانات پر بھی دستخط کر دیے جن میں وہ ملوث نہیں تھی۔
سمیرہ عمر کی تیسری دہائی میں ہیں۔ وہ 5 برس سے انسانی حقوق کے میدان میں سرگرم ہے۔ اس دوران اس نے انسانی امداد کی تقسیم کی کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔ سمیرہ نے اپنے کام کے دوران حوثی ملیشیا کی جانب سے خطرناک کارستانیاں دیکھیں۔ ان میں انسانی امداد کے سامان کی چوری، اسے اپنی بغاوت کے منصوبے کے واسطے استعمال کرنا اور امدادی سامان کو اپنے حامیوں اور جنگجوؤں میں بانٹنا شامل ہے۔
سمیرہ کو 27 جولائی 2019 کی صبح صنعاء میں اس کے گھر سے اغوا کیا گیا۔ اس روز علی الصبح حوثی ملیشیا کی خواتین کی سیکورٹی فورس نے جو الزینبیات کے نام سے معروف ہے ،،، سمیرہ کے گھر پر چھاپا مارا۔ اس کے بعد سمیرہ کو اس کی ایک بیٹی اور اس کی دوست کے سامنے آنکھوں پر پٹی باندھ کر وہاں سے لے جایا گیا۔
سمیرہ 3 ماہ تک حوثیوں کی قید میں رہی۔ اس دوران خواتین قیدیوں کے ساتھ بدترین برتاؤ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہاں تک خواتین قیدیوں کو جنسی حملوں کا نشابہ بھی بنایا جاتا۔ التبہ سمیرہ کو اس نوعیت کی زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ حوثیوں نے سمیرہ کو اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ ہاشمی (سید) خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ تاہم اسے دیگر سخت نوعیت کے تشدد اور اذیت رسانی کا سامنا کرنا پڑا۔
سمیرہ کے مطابق اسے "الزينبيات" فورس کی بھاری بھرکم خواتین کی جانب سے خطرناک نوعیت کے تشدد کا نشانہ بننا پڑتا تھا۔ اس میں پٹائی، بجلی کا کرنٹ، دانتوں کا توڑا جانا، چہرے پر لاتیں پڑنا، ہاتھ اور پاؤں کا رسی سے باندھا جانا اور جبرا حوثی ملیشیا کے سرغنے عبدالملک الحوثی کی "تقاریر" کو کان پھاڑ دینے والی تیز آواز میں سنایا جانا شامل ہے۔
سمیرہ نے مزید بتایا کہ حوثی تحقیق کاروں کی جانب سے پہلے تو جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے۔ اس کے بعد وہ لوگ معافی اور جیل سے رہائی کے لیے سمیرہ کے سامنے بعض خصوصی کاموں کی انجام دہی کی پیش کش کرتے۔ ان میں حوثی حکومت کے بعض ذمے داران کو لبھا کر ان کی جنسی نوعیت کی وڈیوز بنانا شامل تھا۔ اس کا مقصد مذکورہ عہدے داران کو بلیک میل کر کے ان سے جان چھڑانا تھا۔ تاہم سمیرہ نے اس کام کو کرنے سے انکار کر دیا۔
انکار کے بعد سمیرہ کو نئے طریقوں سے اذیت کا نشانہ بنایا جاتا۔ ان میں اس کے بالوں کو آخر تک کاٹ دینا، اس کے جسم کو خراب کرنا، دانتوں کو توڑنا، اسے پھانسی سے پہلے پہنے جانے والے خصوصی کپڑے پہنانا شامل ہے۔
صنعاء میں فوجداری تحقیقات کے حوثی ذمے دار سلطان زابل نے سمیرہ کو دھمکی دی کہ اس کے بھائیوں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ تین ماہ تک مسلسل اذیت اور تشدد کا نشانہ بننے کے نتیجے میں سمیرہ کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا اور اس کا مورال بھی مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔
سمیرہ جیل سے باہر آنے کے بعد علاج کی غرض سے ڈیڑھ ماہ تک ہسپتال میں رہی۔ بعد ازاں وہ اپنی ایک ساتھی خاتون کی معاونت سے مصر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔
سمیرہ کا کہنا ہے کہ وہ حوثیوں کی جیلوں میں خواتین کے ساتھ بدترین اور وحشیانہ سلوک کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی فورموں پر سامنے لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔