شام کے شمال مغربی صوبہ ادلب میں اسد نواز فورسز اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں میں 22 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کی اطلاع کے مطابق باغیوں کے زیر قبضہ صوبہ ادلب میں گذشتہ دو ماہ سے جاری جنگ بندی کے دوران میں یہ خونریز لڑائی ہے اور اس میں اسد نواز فورسز اور باغیوں دونوں کا جانی نقصان ہوا ہے۔
ادلب میں 6 مارچ کو جنگ بندی کا آغاز ہوا تھا۔اس سے پہلے اس صوبے میں اسدی فوج کے زمینی اور فضائی حملوں میں سیکڑوں شہری ہلاک ہوگئے تھے اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوگئے تھے۔
رصدگاہ نے اطلاع دی ہے کہ اتوار کو علی الصباح حزب اختلاف کے جنگجوؤں نے ادلب کے مغرب میں واقع علاقے سہل الغاب میں اسدنواز جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا۔اس کے بعد جھڑپوں میں 15 اسد نواز جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں اور سات باغی جنگجو مارے گئے ہیں۔ان میں القاعدہ سے وابستہ حراس الدین گروپ کے بعض جنگجو بھی شامل ہیں۔
رصدگاہ کے سربراہ رامی عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں کا جنگ بندی کے بعد کسی جھڑپ میں یہ سب سے زیادہ جانی نقصان ہے۔اس سے پہلے متحارب فریقوں کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں اور وہ ایک دوسرے پر بمباری بھی کرتے رہے ہیں لیکن یہ سب سے بڑا متشدد حملہ تھا۔
واضح رہے کہ ادلب میں اس وقت کم سے کم تین لاکھ افراد رہ رہے ہیں۔ان میں حکومت مخالف وہ شامی شہری بھی شامل ہیں جنھیں گذشتہ برسوں کے دوران میں شام کے دوسرے علاقوں سے بے دخل کر یہاں لابسایا تھا۔اس صوبے پرشام میں القاعدہ سے ماضی میں وابستہ گروپ ہیئت تحریرالشام اور حراس الدین ایسے سخت گیر گروپوں کا کنٹرول ہے۔
اس صوبے میں خونریزی رکوانے کے لیے صدر بشارالاسد کے اتحادی روس اور باغیوں کے حامی ترکی کی ثالثی کے نتیجے میں جنگ بندی طے پائی تھی۔دونوں فریقوں نے اب تک اس پر عمل درآمد کیا ہے اور اس کے بعد سے ہزاروں افراد اپنے آبائی گھروں کو لوٹ چکے ہیں اور باقی ہزاروں گنجان آباد مہاجر کیمپوں یا ترکی کی سرحد کے نزدیک عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں۔
امدادی گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان خیمہ بستیوں میں کرونا وائرس کی وَبا پھوٹ پڑی تو یہ تباہ کن ہوگی اور ہزاروں افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔شام میں 2011ء سے جاری جنگ میں اب تک تین لاکھ 80 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔