ایران : احتجاج کے سائے حکام کی تشویش کا باعث ، انسداد ہنگامہ آرائی فورس پوری طرح تیار

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

ایسا نظر آتا ہے کہ ایران میں حکام گذشتہ نومبر سے ملتے جلتے احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑنے کی صورت میں کریک ڈاؤن کی ایک نئی لہر کی تیاری کر رہے ہیں۔ نومبر 2019 میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کے لیے ملک کے اکثر صوبوں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

ایران کی انسداد ہنگامہ آرائی فورس میں اسپیشل یونٹس کے کمانڈر حسن کرمی نے باور کرایا ہے کہ ان کی فورسز کو حکومت کی جانب سے "خصوصی سپورٹ" اور ساز و سامان حاصل ہے۔ یہ سپورٹ پہلے کسی بھی موقع سے کہیں زیادہ ہے تا کہ "معاند خطرات" سے نمٹا جا سکے۔ کمانڈر کا اشارہ ممکنہ عوامی احتجاج کی طرف تھا۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی (اِرنا) کو بدھ کے روز دیے گئے ایک انٹرویو میں کرمی کا مزید کہنا تھا کہ "رواں سال ہماری تیاری عروج پر ہے ... تربیت سے لے کر ساز و سامان تک اور مختلف شعبوں میں دشمن کے خطرات کی جان کاری کے حوالے سے بھی"۔ حسن کرمی 2012 سے ایران کی انسداد ہنگامہ آرائی فورس میں اسپیشل یونٹس کے کمانڈر ہیں۔

ایرانی نظام حکومت کے ذمے داران بیشتر اوقات عوامی احتجاج کو "دشمن کی سازش" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے سرکاری لٹریچر میں مرکزی طور پر اس دشمن کا مطلب امریکا اور اس کے اتحادی ہیں۔

یاد رہے کہ مذکورہ فورس 1992 میں قائم کی گئی تھی۔ اُس وقت پہلی مرتبہ اس فورس نے مشہد میں ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے مداخلت کی۔ اس کے بعد اس فورس نے سات بڑے مواقع پر پر امن احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن کے سلسلے میں مداخلت کی۔ ان میں 1995 میں انجمنوں کے احتجاج کے علاوہ سال 1999 اور 2003 میں طلبہ کے احتجاج بھی شامل ہیں۔

ایران کے تمام 31 صوبوں میں اس فورس کے مجموعی ارکان کی تعداد کئی ہزار ہے۔ صرف دارالحکومت تہران میں ہی سا فورس کے چار بریگیڈز موجود ہیں۔

اسی طرح اس فورس نے 2009 میں متنازع اتنخابات کے نتائج پر بھڑکنے والے عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے مداخلت کی۔ علاوہ ازیں اس فورس نے دسمبر 2017 اور جنوری 2018 میں مہنگائی کے خلاف مظاہروں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا تھا۔

نومبر 2019 میں اس فورسز کا کردار نمایاں رہا جب وہ ایرانی رہبر اعلی علی خامنہ ای کے براہ راست حکم پر حرکت میں آئی تھی۔ اس موقع پر حکومت کی جانب سے ایندھن کی قیمتوں میں تین گُنا اضافے کے خلاف ملک کے تمام صوبوں میں بھرپور مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔ حکومت نے سرکاری طور پر نومبر 2019 کے مظاہروں میں مرنے والوں کی تعداد کا اعلان نہیں کیا۔ تاہم آزاد ذرائع کے اندازے کے مطابق ایک ہفتے کے دوران کم از کم 1500 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

مقبول خبریں اہم خبریں