متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش کا کہنا ہے کہ لیبیا میں ریاستی سرپرستی کے سائے میں ملیشیاؤں کے ہتھیاروں کو قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے عرب ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اس امر کو مسترد کرتے ہوئے زور دیا کہ لیبیا کا بحران صرف بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
پیر کے روز اپنی سلسلہ وار ٹویٹس میں قرقاش کا کہنا تھا کہ "اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے ایسے اندیشے ہیں جن کو عالمی برادری قبول نہیں کر سکتی ، ان میں سرفہرست لیبیا میں لڑائی کا جاری رہنا ہے"۔
لا شك أن هناك العديد من المخاوف التي لا يمكن أن يقبل بها المجتمع الدولي وأولها استمرار الإقتتال.
— د. أنور قرقاش (@AnwarGargash) June 8, 2020
هناك قلق مشروع ببقاء قرار الحرب والسلام ليبياً ضمن مؤسسات الدولة، ورفض شرعنة سلاح الميليشيات تحت غطاء الدولة في بلد عربي جديد، والسبيل إلى ذلك الحل السياسي الجامع للأطراف الليبية.
اماراتی وزیر مملکت نے مزید کہا کہ "اس حوالے سے جائز تشویش پائی جاتی ہے کہ جنگ اور امن کا فیصلہ ریاست کے اداروں کے ضمن میں رہے۔ ایک اور عرب ملک میں ریاستی پردے کے نیچے ملیشیاؤں کے ہتھیاروں کو قانونی صورت دینے کو مسترد کرتے ہیں۔ اس حوالے سے واحد راستہ لیبیا کے فریقوں کے درمیان سیاسی حل ہے"۔
قرقاش کے نزدیک لیبیا کے حوالے سے مصری منصوبے کے لیے امریکی قومی سلامتی کی تائید سے ،،، فوری فائر بندی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے حوالے سے عرب اور بین الاقوامی زورِ حرکت کو تقویت ملے گی۔
یاد رہے کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ہفتے کے روز ایک سیاسی منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مقصد لیبیا میں معمول کی زندگی کی طرف واپسی کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ السیسی نے بحران کے حل کے لیے عسکری آپشن کو پکڑے رہنے سے خبردار کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ سیاسی حل ،،، اس بحران کے حل کا واحد راستہ ہے۔
یہ منصوبہ "اعلانِ قاہرہ" کے نام سے سامنے آیا ہے۔ منصوبے میں زور دیا گیا ہے کہ لیبیا کی یک جہتی کے حوالے سے تمام تر بین الاقوامی قرار دادوں اور پیر 8 جون سے فائر بندی کا احترام کیا جائے۔
گذشتہ روز اتوار کو مصر کے اس منصوبے کا بین الاقوامی سطح پر بالخصوص امریکا، یورپ اور عرب ممالک کی جانب سے بھی خیر مقدم کیا گیا۔ دوسری جانب لیبیا میں وفاق حکومت نے اپنے وزیر داخلہ کی زبانی یہ موقف دہرایا کہ سرت شہر اور لیبیائی فوج کے ہاتھوں میں موجود دیگر علاقوں پر کنٹرول حاصل ہونے تک معرکہ آرائی جاری رہے گی۔