بغداد اور واشنگٹن کے درمیان بات چیت کا آغاز آج سے

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

عراق میں آج بغداد اور واشنگٹن کے درمیان اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا پہلا دور شروع ہو رہا ہے۔ اس بات چیت کے طریقہ کار کے حوالے سے عراق میں داخلی سطح پر سیاسی اختلاف پایا جاتا ہے۔

عراق اور امریکا کی امور خارجہ کی وزارتوں نے دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے تزویراتی بات چیت شروع کرنے کے لیے اپنی تیاری مکمل کر لی ہے۔

عراق میں سُنّی سیاست دانوں نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے معاملے میں شیعہ سیاست دانوں کے انفرادی طرز عمل پر نکتہ چینی کی ہے۔ تاہم دوسری جانب انہوں نے اس بات چیت کے انتظامی امور کے سلسلے میں مصطفی الکاظمی کی حکومت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

اس بات چیت کے حوالے سے عراقی سیاست دان منقسم نظر آتے ہیں۔ شیعہ سیاسی قوتوں کی اکثریت کا اصرار ہے کہ عراقی اراضی سے غیر ملکی اور امریکی افواج کے انخلا کی تاریخ مقرر کی جائے۔ دوسری جانب کرد اور سنی حلقے اس کی تائید نہیں کرتے۔

یہ بات چیت دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے تعین کے لیے اسٹریٹجک فریم اور سیکورٹی سے متعلق سمجھوتوں پر دستخط کے تقریبا 12 برس بعد ہونے جا رہی ہے۔ توقع ہے کہ بات چیت کا آغاز سفیروں کی سطح پر دونوں وفود کے درمیان کلوز ٹیلی وژن سرکٹ کے ذریعے ہو گا۔ الکاظمی کی حکومت میں عراقی وزیر خارجہ کے حوالے سے رائے شماری نہ ہونے کے سبب امریکی وزیر خارجہ فریقین کے بیچ بات چیت کے نگراں ہوں گے۔

اس بات چیت سے قبل ایرانی وزیر توانائی رضا اركادنيان کی قیادت میں ایک وفد نے بغداد کا دورہ کیا۔ وفد نے عراق کے سینئر ذمے داران سے ملاقات کی جن میں صدر برہم صالح سرفہرست ہیں۔

وفد میں اسماعیل قاآنی شامل تھے۔ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایرانی القدس فورس کی قیادت سنبھالنے کے بعد سے یہ قاآنی کا بغداد کا پہلا اعلانیہ دورہ تھا۔

مقبول خبریں اہم خبریں