امریکی اور عراقی حکومت نے جمعے کی صبح جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ امریکا آئندہ مہینوں کے دوران عراق میں اپنے فوجی وجود میں کمی لانے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ یہ بیان بغداد اور واشنگٹن کے درمیان تزویراتی بات چیت کے آغاز کے بعد سامنے آیا۔
بیان میں دونوں ملکوں کی حکومت نے کہا ہے کہ "داعش تنظیم کے خطرے پر قابو پانے کے حوالے سے بڑی پیش رفت کی روشنی میں امریکا آنے والے مہینوں میں عراق میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کرتا رہے گا"۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات پیش نہیں کی گئیں۔
اسی طرح بیان میں امریکا کا یہ موقف بھی دہرایا گیا کہ واشنگٹن عراق میں مستقل اڈوں یا مستقل عسکری وجود کے لیے کوشاں نہیں ہے۔
اس کے مقابل عراق نے اُن فوجی اڈوں کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے جہاں امریکی فوجی موجود ہیں۔ یہ پیش رفت ان سلسلہ وار میزائل حملوں کے بعد سامنے آئی ہے جن کا ذمے دار ایران نواز عراقی گروپوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔
بات چیت میں فریقین کی جانب سے دونوں ملکوں کے بیچ اقتصادی، سیاسی، سیکورٹی اور ثقافتی تعلقات کے حوالے سے بنیادی تصورات پیش کیے گئے۔ اس موقع پر امریکا اور عراق کے درمیان اچھے تعلقات کو گراں قدر قرار دیا گیا۔ ساتھ ہی باور کرایا گیا کہ مصطفی الکاظمی کی سربراہی میں نئی عراقی حکومت کے ساتھ مل کر دنوں ملکوں کے بیچ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔
عراقی وزارت خارجہ کے مطابق تزویراتی بات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس حوالے سے آئندہ اجلاس مناسب وقت پر براہ راست واشنگٹن میں منعقد ہو گا۔
اس سے قبل خصوصی ذرائع نے العربیہ کو بتایا تھا کہ عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے ایک بار پھر باور کرایا ہے کہ عراق کی سیادت اور مفاد ان کے لیے اولین ترجیح ہے۔
یاد رہے کہ حالیہ بات چیت دونوں ملکوں کے بیچ تعلقات پر کئی ماہ سے چھائی سرد مہری کے بعد سامنے آئی ہے۔ عراق اور امریکا جمعرات کے روز "تزویراتی مکالمے" کے لیے ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر واپس آئے ہیں۔ اس بات چیت کا مقصد دونوں شراکت داروں درمیان استحکام کو مضبوط بنانا ہے۔
عراقی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ مصطفی الکاظمی کے وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد آج یہ موقع موزوں نظر آ رہا ہے۔ الکاظمی امریکا اور اس کے عرب حلیفوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے سبب جانے جاتے ہیں۔
عراقی پارلیمنٹ میں شیعہ ارکان نے چند ماہ قبل ملک میں غیر ملکی افواج کے وجود کے خاتمے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اس دوران واشنگٹن مسلح گروپوں کے درجنوں ٹھکانوں کو حملوں کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔