ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے معائنہ کاروں کی جانب سے یہ شکایت سامنے آ چکی ہے کہ انہیں ایران میں ان مقامات تک پہنچنے کی اجازت نہیں دی گئی جہاں دو دہائیاں قبل جوہری سرگرمیاں عمل میں آئی تھیں۔ اس کے بعد ایسا نظر آ رہا ہے کہ ایران کو آٹھ برسوں میں پہلی بار بین الاقوامی جوہری مبصرین کے ہاتھوں "سرکاری سطح پر یورپی توبیخ" کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بلومبرگ نیوز ایجنسی کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے گورنرز کی کونسل کے اجلاس سے ذرا پہلے ایک قرار داد کے مسودے کو حتمی شکل دی۔ قرار داد میں ایران سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی معائنہ کاروں کے ساتھ "جامع طور پر معاملہ" انجام دے۔
بلومبرگ کا کہنا ہے کہ مذکورہ قرار داد کے منظور ہونے کی صورت میں یہ 2012 کے بعد ایران کے خلاف پہلی "سفارتی توبیخ" ہو گی۔
توقع ہے کہ اس قرار داد کو امریکی حمایت حاصل ہو گی۔ قرار داد میں مذکورہ تینوں یورپی ممالک اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کریں گے کہ ایران نے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کو "ملحقہ پروٹوکولز" کے مطابق جوہری مقامات تک رسائی کی اجازت نہیں دی۔ ملحقہ پروٹوکولز کو وہ اختیارات حاصل ہیں جو جوہری معاہدے میں درج ہیں۔ اس کے تحت آئی اے ای اے کو فوری تفتیش اور معائنے کی کارروائیوں پر عمل درامد کا اختیار حاصل ہے۔
اس سے قبل گذشتہ روز پیر کو ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا کہ "اگر ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے کوئی غیر تعمیری فیصلہ کیا تو ہمارا جواب سامنے آ سکتا ہے"۔
آئی اے ای اے کے گورنرز کی کونسل نے پیر کے روز اپنے سہ ماہی اجلاس کا آغاز کیا۔ چار روز تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا۔
ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رفائیل گروسی نے گذشتہ روز ایران کو خبردار کرتے ہوئے وہاں کے ذمے داران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ معائنہ کاروں کو فوری طور پر ان دو مقامات پر پہنچنے کی اجازت دیں جن کا ایجنسی نے سابقہ طور پر تعین کیا تھا۔