ایرانی یورینیم کی افزودگی کا تناسب حد سے متجاوز ،،، جوہری ہتھیار کی تیاری کے لیے کافی ؟
ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے تصدیق کی ہے کہ ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ اجازت دی گئی حد سے تجاوز کر گیا ہے۔
ایجنسی کی جانب سے جاری حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران ابھی تک دو مشتبہ جوہری مقامات تک رسائی دینے سے انکار کر رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ سوال نمایاں طور پر جنم لے رہا ہے کہ "کیا ایران کے پاس اتنا یورینیم ہے جس سے جوہری ہتھیار تیار کیا جا سکے؟"۔
ایران کے پاس اس وقت یورینیم کی افزودگی کی تنصیبات کے 3 مقامات ہیں :
* نمبر ایک : اصفہان جوہری کمپاؤنڈ جو 2004 میں بنایا گیا۔ وسطی ایران میں واقع یہ کمپاؤنڈ ملک میں اہم ترین جوہری ٹھکانوں میں شمار ہوتا ہے۔
* نمبر دو : دوسری تنصیب "فوردو" اسٹیشن میں واقع ہے جس کا انکشاف 2009 میں ہوا تھا۔ یہ اسٹیشن تہران کے جنوب میں پہاڑی علاقے میں زیر زمین واقع ہے۔ یوں اس اسٹیشن کو تباہ کرنا عملی طور پر ناممکن ہو گیا ہے۔ مذکورہ اسٹیشن پر گذشتہ برس سے 1044 سینٹری فیوجز نے کام شروع کر دیا تھا۔
* نمبر تین : یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے تیسری تنصیب "ناتنز" کہلاتی ہے۔ یہ ایران کے وسط میں ایک لاکھ مربع میٹر کے رقبے پر زمین سے آٹھ میٹر نیچے واقع ہے۔ اس تنصیب کا انکشاف 2002 میں ہوا تھا۔ یہاں تقریبا 50 ہزار سینٹری فیوجز کے کام کرنے کی گنجائش ہے۔
سال 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی پاسداری کم کر دینے کے بعد ایران کا یورینیم کا ذخیرہ بڑھ کر 1571 کلو گرام تک پہنچ گیا۔ تاہم یہ حجم اب بھی ناکافی ہے۔ جوہری ہتھیار کی تیاری کے لیے یورینیم کی افزودگی کا تناسب بڑھا کر 90% تک کرنا ہو گا۔ اس طرح جوہری ہتھیار کی تیاری کے لیے قابل تقسیم مواد کام کر سکے گا۔
ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کا تناسب 20% تک پہنچ گی تھا جس کے بعد تہران جوہری معاہدے کے تحت اسے بیرون ملک فروخت کرنے پر مجبور ہو گیا۔
ایران کی جانب سے یہ خطرہ ہے کہ وہ 20% تک افزودہ یورینیم تیار کر سکتا ہے ،، اور جو اس تناسب سے افزودگی کو ممکن بنا لے اس کے لیے 90% تک چلا جانا آسان ہو گا۔ اس وجہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے کو برا قرار دیا کیوں کہ اس معاہدے نے ایران سے وہ صلاحیت نہیں چھینی جو اسے کسی بھی وقت یورینیم کی افزودگی کا تناسب بڑھانے میں کامیاب بناتی ہے۔ بہرکیف ایران کے پاس موجود پرانے سینٹری فیوجز کے معیار کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تہران کو تباہ کن جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ طویل وقت اور فنّی صلاحیت درکار ہو گی۔