اسرائیل نے پیر کی شب شام میں ایران کے کئی عسکری ٹھکانوں کو بم باری کا نشانہ بنایا۔ اطلاعات کے مطابق لبنانی تنظیم حزب اللہ کے مراکز اور بشار الاسد کی فوج کے زیر انتظام فضائی دفاعی نظام کی بعض بیٹریاں بھی اس کارروائی کی لپیٹ میں آئیں۔
العربیہ اور الحدث نیوز چینلوں کے نمائندے زیاد الحلبی نے بتایا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں شام کے جنوبی صوبوں درعا اور القنیطرہ میں کئی ٹھکانوں پر کاری ضرب لگائی گئی۔ علاوہ ازیں دارالحکومت دمشق کے جنوب میں ایرانی عسکری مراکز پر بھی حملے کیے گئے۔ اس دوران بم باری میں ایک ایرانی افسر کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جب کہ شامی حکومت کے ہمنوا حلقوں نے بشار کی فوج کے اہل کاروں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
شام یہ ایرانی ٹھکانوں پر یہ اسرائیلی حملہ رواں ماہ آٹھ جولائی کو دمشق میں تہران اور بشار حکومت کے درمیان دستخط کیے جانے والے سیکورٹی اور عسکری سمجھوتے کے تقریبا دو ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔
امریکا کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں مشرق وسطی کے امور کے محقق ڈاکٹر یوسف حداد نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو دیے گئے بیان میں کہا کہ "تہران اور بشار الاسد کے درمیان طے پانے والے اس سمجھوتے سے شام کے اندر مساوات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ اس نے اسرائیل کو شام میں ایرانی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا ایک اضافی جواز فراہم کر دیا ہے۔ اس کا مقصد نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ایران کو عسکری مقابلے کے لیے کھینچ لانا ہے"۔
حداد کے نزدیک ایران کم از کم اس مرحلے پر اسرائیل کے ساتھ کھل کر عسکری مقابلے پر نہیں آئے گا کیوں کہ تہران کی نظریں امریکی انتخابات پر لگی ہوئی ہیں اور وہ ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کی جیت پر انحصار کر رہا ہے۔ اس لیے کہ ڈیموکریٹس کی حکومت کے دور میں ایران کا جوہری معاہدہ طے پایا۔ اسرائیل کے ساتھ بڑا مقابلہ ممکنہ طور پر جو بائیڈن کے لیے ایرانی جوہری معاہدے کے حوالے سے پریشان کن ثابت ہو سکتا ہے۔
مشرق وسطی کے امور کے محقق نے تہران اور شامی حکومت کے حالیہ سمجھوتے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ "بشار الاسد کی کوئی سیاسی اہمیت باقی نہیں رہی ، روس بھی بشار کو امریکیوں کے مقابلے میں محض ایک کارڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں"۔
ڈاکٹر حداد کے نزدیک شامی حکومت کے ساتھ ایران کے عسکری سمجھوتے کا مقصد بشار الاسد کو یہ اشارہ دینا ہے کہ شام میں اس کا کردار باقی ہے۔