ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا الحشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کی ہلاکت کی تحقیقات کرنے والی خصوصی کمیٹی نے عراق میں ایک کمیونی کیشن کمپنی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مذکورہ دونوں افراد کے قتل کی کارروائی میں ملوث ہے۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی مہر کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی کو الحشد الشعبی کی قیادت کی جانب سے بعض دستاویزات ملی ہیں۔ ان دستاویزات میں ایک موبائل کمپنی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ہلاکت کی کارروائی میں اس کا بھی ہاتھ ہے۔ اس کمپنی نے بغداد ایئرپورٹ پر "وکٹوریا" فوجی اڈے میں موجود امریکی فوج کی کمان کو ،، ابو مہدی المہندس کے ایک ساتھی کے موبائل فون کی کالز کا ڈیٹا فراہم کیا۔ المہندس امریکی فضائی حملے میں قاسم سلیمانی کے ساتھ مارا گیا تھا۔
امریکا نے رواں سال جنوری کے اوائل میں ڈرون طیارے کے ذریعے سلیمانی کو اس وقت حملے کا نشانہ بنایا جب وہ ابو مہدی المہندس اور دیگر افراد کے ساتھ بغداد کے ہوائی اڈے سے باہر آ رہا تھا۔ اس موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سلیمانی امریکی اہداف کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
عراقی حزب اللہ ملیشیا کے سیکورٹی ذمے دار نے کئی بار عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کو دھمکی دی کہ سلیمانی اور المہندس کی ہلاکت کا انتقام لیا جائے گا۔
عراقی حزب اللہ کے سیکورٹی ذمے دار ابو علی العسکری نے الکاظمی پر الزام لگایا کہ انہوں نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے قتل کی کارروائی میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
ایرانی رہبر اعلی علی خامنہ ای کی جانب سے بھی دھمکی دی گئی کہ ایران قاسم سلیمانی کے قتل کے جواب میں امریکیوں کو مماثل حملے کا نشانہ بنائے گا۔ خامنہ ای کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق رہبر اعلی نے عراق کے وزیر اعظم مصطفی الکاظم کو آگاہ کر دیا کہ امریکا ایک دشمن ہے جو خود مختار عراق نہیں دیکھنا چاہتا۔
خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ ایران ،،، عراق اور امریکا کے درمیان تعلقات میں مداخلت نہیں کرے گا۔